جمہوریت یا معاشی آمریت؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
اگر چار ہزار من گندم 2200 روپے فی من میں بک سکتی ہے تو 5500 روپے والی چینی کی بوری 9000 روپے تک کیوں جا پہنچی؟ یہ محض ایک اقتصادی سوال نہیں بلکہ پاکستان کے معاشی ڈھانچے کی گہرائیوں میں پیوست ایک تلخ سچائی ہے۔ ہمارے ہاں اشیاء کی قیمتیں نہ طلب و رسد کے اصولوں سے طے ہوتی ہیں، نہ مارکیٹ کی خودکار طاقتوں سے۔ قیمتوں کا تعین ہوتا ہے طاقتور طبقے کی مرضی، مفادات اور مافیاز کی اجارہ داری سے جو پیداوار عوام سے لیتے ہیں مگر منافع اپنی تجوریوں میں بھر لیتے ہیں۔

گندم کاشت کرنے والا کسان جو سال بھر دھوپ، گرمی، قرضوں، کھادوں، مہنگے بیج اور ناکارہ زرعی نظام کا سامنا کرتے ہوئے زمین کا سینہ چیرتا ہے۔مگر جب اس کی فصل تیار ہوتی ہے تو اسے سرکاری امدادی قیمت کے نام پر اونے پونے بیچنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر وہ آزاد منڈی کا رخ کرے تو وہاں بیوپاریوں کی اجارہ داری، کمیشن خور مڈل مین اور منڈی کا غیر شفاف نظام اس کی ریڑھ توڑ دیتا ہے۔ کسان کی محنت پر منافع لینے والے وہی طاقتور طبقات ہیں جو پالیسی بھی خود بناتے ہیں اور قیمت بھی خود طے کرتے ہیں۔

یہی صورتحال گنے کی فصل کے ساتھ بھی پیش آتی ہے۔ گنا بھی وہی کسان کاشت کرتا ہے مگر شوگر ملز کے دروازے پر پہنچتے ہی کھیل بدل جاتا ہے۔ گنے کی قیمت، تول، کٹوتی اور ادائیگی کا نظام شوگر مافیا کے ہاتھ میں ہے جو حکمران جماعتوں اور وزارتی خاندانوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ کسان کو کم نرخ، کٹوتی اور تاخیر کے ذریعے کمزور کیا جاتا ہے جبکہ چینی کی قیمتوں پر کوئی قانون یا ضابطہ لاگو نہیں ہوتا کیونکہ چینی "عوامی ضرورت” نہیں بلکہ "اشرافیہ کی پیداوار” بن چکی ہے۔

کھاد کی صورت حال اس سے بھی بدتر ہے۔ یوریا اور ڈی اے پی جیسی زرعی کھادیں ان کارخانوں میں تیار ہوتی ہیں جن کے مالکان اکثر وزراء، مشیر یا طاقتور خاندان ہیں۔ کسان کو یہ کھاد نہ صرف مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہے بلکہ جعلی یا ناقص مال کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔ کسان کی محنت کی لاگت بڑھتی ہے اور منافع ان صنعتکاروں کی جیب میں جاتا ہے جنہوں نے خود ہی قیمتیں بڑھانے کے طریقے ایجاد کر رکھے ہیں۔

پھر آتا ہے پٹرول اور ڈیزل جو نہ صرف کسان کے ٹریکٹر بلکہ ہر شہری کی نقل و حرکت اور روزمرہ کی معیشت سے جُڑا ہوا ہے۔ پٹرول پر مکمل کنٹرول حکومت کے پاس ہوتا ہے اور جب بھی بجٹ خسارہ یا آئی ایم ایف کی شرائط درپیش ہوں تو یہ کنٹرول عوام پر مہنگائی کے ہتھوڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مگر ریاستی خزانے میں آنے والے یہ ٹیکس براہ راست عوام پر خرچ نہیں ہوتے بلکہ حکمران اشرافیہ کی مفت سہولیات اور شاہانہ اخراجات میں جھونک دیے جاتے ہیں۔

سب سے اذیت ناک پہلو بجلی کا ہے۔ ملک میں بجلی پیدا کرنے والی بیشتر کمپنیاں نجی شعبے میں ہیں جن کے مالکان براہ راست سیاسی و انتظامی طاقتور طبقات سے وابستہ ہیں۔ یہ کمپنیاں بجلی پیدا کریں یا نہ کریں، انہیں "کیپسٹی پیمنٹس” کے نام پر عوامی خزانے سے اربوں روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ اس کا بوجھ براہ راست عوام کے بلوں پر ڈالا جاتا ہے۔ اگر کوئی شہری 201 یونٹ بجلی استعمال کرے تو اس کا بل دس ہزار روپے سے تجاوز کر جاتا ہے، جبکہ انہی حکمرانوں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کو بجلی، پٹرول اور دیگر سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

علاج معالجے کے میدان میں بھی یہی طبقاتی فرق نمایاں ہے۔ غریب شہری سرکاری ہسپتال میں پیناڈول کی گولی کے لیے ترستا ہے اور اگر کسی بڑے ٹیسٹ، بستر یا ڈاکٹر تک رسائی درکار ہو تو سفارش یا رشوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے برعکس حکمران طبقے کے افراد معمولی بیماری پر بھی بیرون ملک علاج کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے لندن، دبئی، نیویارک کے ہسپتال کھلے ہیں اور خرچ ہوتا ہے پاکستان کے غریب عوام کے ٹیکس کا پیسہ۔

یہ سب کچھ اس بنیادی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اس ملک میں پیداوار تو عوام کرتے ہیں لیکن منافع اور کنٹرول طاقتور طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ اشیاء کی قیمتیں معیشت کے اصولوں پر نہیں بلکہ اشرافیہ کے مفادات پر مبنی فیصلوں سے طے ہوتی ہیں۔ قانون صرف کمزور پر لاگو ہوتا ہے اور طاقتور قانون سے بالا تر ہوتا ہے۔
یہ نظام جمہوری نہیں، معاشی آمریت ہے ، ایک ایسا نظام جس میں عوام صرف ووٹر، ٹیکس دہندہ، بل دہندہ اور سائل ہے جبکہ حکمران طبقہ بادشاہ ہے جسے نہ احتساب کا خوف ہے نہ قانون کی پرواہ۔

سوال یہ نہیں کہ چینی مہنگی کیوں ہے۔سوال یہ ہے کہ طاقتور اپنی پیدا کردہ اشیاء کی قیمت خود طے کرنے کا اختیار کب تک رکھے گا؟اور غریب جو ہر شے کا خریدار ہے، کب تک صرف بل ادا کرتا رہے گا؟

اگر ہم واقعی جمہوریت کے دعوے دار ہیں تو جمہوریت کا مطلب صرف انتخابات نہیں بلکہ معاشی عدل بھی ہونا چاہیے۔ جمہوریت کا حسن عوام کے حقوق کے تحفظ میں ہے اور اگر وہ تحفظ صرف طاقتوروں کے لیے مخصوص ہو جائے تو یہ نظام جمہوریت نہیں بلکہ ایک "جمہوری آمریت” بن جاتا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ اس نظام کو چیلنج کیا جائے۔ جمہوریت کو اشرافیہ کے دامن سے نکال کر کسان، مزدور اور متوسط طبقے کے ہاتھ میں دیا جائے۔ معیشت کو عوامی مفادات کے تابع بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر یہ معاشی آمریت ہر روز ہزاروں گھروں کے چولہے بجھاتی رہے گی اور ہم صرف تحریریں لکھتے، سوالات اٹھاتے اور احتجاج کرتے رہ جائیں گے۔

Shares: