جامعہ کراچی کی ہونہار طالبہ نے PhDسپر وائزر کے مظالم سے تنگ آکر خود کشی کرلی

0
90

جامعہ کراچی کی ہونہار طالبہ نے PhDسپر وائزر کے مظالم سے تنگ آکر خود کشی کرلی

باغی ٹی وی : حالیہ دنوں میں پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں پیش آنے والا یہ سب سے المناک واقعہ ہے کہ ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ریسرچ جامعہ کراچی کی ایک ہونہار طالبہ نادیہ اشرف نے اپنے PhD سپر وائزر ڈاکٹر اقبال چوہدری کے مظالم سے تنگ آکر خود کشی کرلی، اس واقعے کے بعد ڈاکٹر پنجوانی سینٹر میں طالب علموں پر خوف و ہراس طاری ہو گیا ہے، ملک کے اعلی اختیاری اداروں کو اس واقعے کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے،
تاکہ یہ جانا جاسکے کہ کیا اسباب تھے کہ نادیہ اشرف ایک لائق محقق ہونے کے باوجود پچھلے 15 سالوں میں اپنا پی ایچ ڈی مکمل نہیں کرپائی۔۔۔

وہ کیا اسباب تھے کہ نادیہ اشرف اپنے قریبی دوستوں سے یہ کہتی تھی کہ ‘ڈاکٹر اقبال چوہدری میرا پی ایچ ڈی نہیں ہونے دیں گے’.
‘ڈاکٹر صاحب نہ جانے مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔’

یہ وہ کلمات ہیں جو نادیہ اشرف نے خودکشی کرنے سے پہلے اپنے قریبی حلقے میں ادا کیے ہیں۔

نادیہ اشرف کے قریبی حلقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر اقبال چوہدری نے نادیہ کو مزید تنگ کرنے کے لیے اس پر اپنی چہیتی نا لائق فیکلٹی ڈاکٹر عطیۃ الوہاب کو بھی مسلط کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھی، نادیہ نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ اس نے جب کسی دوسری ریسرچ آرگنائزیشن میں نوکری اختیار کی تو وہاں بھی اقبال چوہدری نے نادیہ اشرف کی نوکری ختم کروانے کی کوشش کی۔۔

نادیہ اشرف نے دوبارا پنجوانی سینٹر جوائن کیا پی ایچ ڈی میں ایکسٹینشن لے کر اپنا مکالہ جمع کروایا، مگر اقبال چوہدری نے اسے مزید تنگ کیا اور اس سے کہا کہ وہ چھ مہینے کا دوبارہ ایکسٹینشن لے، ایک مجبور لڑکی نے دوبارہ ایکسٹینشن لی مگر نادیہ اشرف میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ
انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل سائنسز جامعہ کراچی پر 17 سالوں سے قابض غیر قانونی ڈائریکٹر ڈاکٹر اقبال چوہدری سے مقابلہ کر سکے۔۔۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی والدہ کے ساتھ تنہا رہنے والی لاچار لڑکی نادیہ اشرف نے موت کو گلے لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تحریر جامعہ کراچی کے صاحبِ اختیار افراد کو بیدار کرنے کے لیے نہیں لکھی گئی ہے کیونکہ بیدار تو سوئے ہوؤں کو کیا جاتا ہے مردوں کو نہیں۔

ڈاکٹر اقبال چوہدری اور آزاد ذرائع ان الزامات کی تصدیق نہیں کرتے تاہم یہ سوال برقرار ہے کہ ہونہار طالبہ جو کینسر جیسے موضی مرض پر ریسرچ کررہی تھی وہ خود کشی کیوں کرے گی ؟ اور بیس برس سے زائد تعلیم حاصل کر لینے کے بعد اب اختتام پر آکر کیوں خود کشی کرے گی ؟ ۔ جامعہ جس طالبہ کو فرانس میں اعلی ریسرچ کے لئے خود بھیجتی ہے پھر اس کو اتنے سال تک پی ایچ ڈی کرنے میں کوئی کوئی رکاوٹ رہی ؟ اگر یہ طالبہ ڈاکٹر اقبال کو اپنی پریشانیاں بتاتی رہی تو والدہ کو اکیلا چھوڑ کر ایک پڑھی لکھی طالبہ نے خود کشی کیوں کی ۔ اس پر تحقیقات ہونا لازم ہیں

Leave a reply