اوکاڑہ : 1952ء میں تعمیر ہونے والی جامعہ عثمانیہ گول چوک مسجد خطرناک قرار،محکمہ اوقاف کی آنکھیں بند

اوکاڑہ ،باغی ٹی وی (نامہ نگار ملک ظفر)اوکاڑہ کی پہلی اور تاریخی جامعہ عثمانیہ گول چوک مسجد محکمہ اوقاف کی لاپروائی اور غفلت کے نتیجے میں خستہ حالی کا شکار ہے تین تین سوفٹ بلند و بالا میناروں والی اوکاڑہ کی پہلی اور تاریخی جامعہ عثمانیہ گول چوک مسجد محکمہ اوقاف کی لاپروائی اور غفلت کے نتیجے میں خستہ حالی کا شکار ہے مسجد کے مینار تیز ہوائوں یا کسی زلزلے کے باعث گرنے سے کسی بڑے سانحہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں اوکاڑہ کی تاریخی مسجد جامعہ عثمانیہ گول چوک کا سنگ بنیاد 20 فروری 1952 کو قاری محمد محی الاسلام نے قاضی عبدالرحمان دیو بندی کی کاوشوں سے علامہ شبیر احمد عثمانی کی یاد میں رکھا مخیر افراد کے تعاون سے دس سال کے عرصے میں مسجد تکمیل کو پہنچی مسجد میں 120دوکانات کے علاوہ 42 دفاتراور رہائشی مکان بھی شامل ہیں مسجد میں تین تین سوفٹ اونچے2 مینار جن کے گنبد پر سونے کا نکل چڑھایاگیا

1969 میں اس مسجد کو محکمہ اوقاف نے تحویل میں لیکر دوکانوں اور دفاتر کی آمدنی کا ذمہ لیا۔ اس وقت جامع عثمانیہ کی بلڈنگ کا کرایہ محکمہ اوقاف وصول کر رہا ہے جو سالا نہ دو لاکھ روپیہ بتایا جاتا ہے جبکہ اس کے اخراجات اڑھائی لاکھ روپیہ کے قریب ہیں محکمہ اوقاف کی لاپروائی اور عدم توجہ کی وجہ سے اوکاڑہ کی عظیم الشان مسجد اپنی تباہی کی داستان سنا رہی ہے نیسپاک،پرووینشنل بلڈنگز ساہیوال بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ اوکاڑہ اور ٹی ایم اے اوکاڑہ اپنی اپنی رپورٹ کے مطابق مذکورہ مسجد کی بلڈنگ کو انتہائی مخدوش اور خطرناک قرار دے چکے ہیں جن کے مطابق اگر خدانخواستہ کسی آندھی طوفان یا شدید زلزلہ کی صورت میں بلڈنگ گر گئی تو نتیجے میں مالی نقصانات کے علاوہ جانی نقصان بھی ہو گااس بلڈنگ کی تعمیر نوکے لئے سابق وفاقی وزیر رناا سکند اقبال مرحوم نے دس کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کروائی جبکہ محکمہ اوقاف کی جانب سے بھی دس کروڑ روپے اس مسجد کی بلڈنگ کی تعمیر نو کے لئے مختص کئے گئے مگر محکمہ اوقاف کی نا اہلی اور غیر ذمہ دار ی کی وجہ سے گرانٹ واپس ہوگئی اس وقت مسجد کا بالائی حصہ کھنڈر بن چکا ہے مسجد کی چھتوں کی خستہ حالی کی بنا پر کئی مرتبہ لینٹر کے ٹکڑے بھی گرناشروع ہوچکے ہیں جس سے اکثر اوقات نمازیوں دکانداروں کے علاوہ عام شہری بھی زخمی ہو چکے ہیں اہل اوکاڑہ نے حکومت پاکستان سے مسجد پر فوری طور پر توجہ دیتے ہوئے اس کی مرمت کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بڑے جانی اور مالی نقصان سے بچا جا سکے

Comments are closed.