اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے باہر شدید غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ حملے ایک ایسے وقت میں شروع ہوئے جب دو ماہ کا جنگ بندی معاہدہ حماس کے ساتھ ختم ہو گیا تھا۔ تل ابیب اور یروشلم کو جوڑنے والی ہائی وے 1 پر مظاہرین نے احتجاج کی اور بینرز اٹھا رکھے تھے،بدھ کے روز ہزاروں افراد نے دارالحکومت میں پہنچ کر احتجاج کیا اور کہا کہ نیتن یاہو مسلسل اپنے سیاسی مفادات کو اسرائیل کی سیکیورٹی، اس کے شہریوں اور فلسطینیوں کی زندگیوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بدھ کے روز کہا کہ اس نے غزہ میں "مخصوص زمینی کارروائیاں” شروع کی ہیں اور علاقے کے کچھ حصوں پر دوبارہ قبضہ کیا ہے۔ گزشتہ دن اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی جس میں ۴۰۰ سے زائد افرادشہید ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے، مظاہرین کے درمیان، یواف یائری، جو یروشلم کے ایک آرٹسٹ اور سابقہ آرٹ اسکول کے ڈائریکٹر ہیں، نے سی این این کو بتایا کہ ان کے خیال میں جنگ کا دوبارہ آغاز صرف سیاسی مقاصد کے لیے تھا تاکہ نیتن یاہو اپنے دائیں بازو کے اتحادیوں کو اپنے ساتھ رکھ سکے۔
مخالف رہنما یائر لاپڈ نے بھی بدھ کے روز مظاہروں میں شرکت کی اور کہا کہ یہ احتجاج اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تھا کہ حکومت یہ نہ سمجھے کہ وہ جو چاہے کر سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج اس بات کا پیغام ہے کہ اسرائیل اپنے جمہوریت کو چھیننے کی اجازت نہیں دے گا۔تاہم، کچھ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ نیتن یاہو غزہ میں فوجی کارروائی کر کے ملک کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ اس گروپ کی ایک ممبر، مرگلیت یاچاد نے کہا کہ "ہمیں اپنے رہنما کا احترام کرنا چاہیے، نہ کہ ان پر الزامات لگانے چاہئیں کیونکہ دشمن ہمیں ٹوٹا ہوا دیکھ کر فائدہ اٹھاتا ہے۔”