اسرائیل اور حماس کے درمیان طویل اور تباہ کن جنگ کے بعد بالآخر ایک جنگ بندی معاہدے کا اعلان کر دیا گیا، جس کے بعد غزہ اور اسرائیل دونوں جانب خوشی اور جشن کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ تاہم عوامی سطح پر اب بھی خدشات اور بے یقینی کی فضا قائم ہے کہ آیا یہ معاہدہ پائیدار ثابت ہو پائے گا یا نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کی رات مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی فریم ورک کے پہلے مرحلے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ٹرمپ کے مطابق اس منصوبے میں حماس کی تحویل میں موجود تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کا ایک متعین حد تک انخلا شامل ہے۔ بعد ازاں ایک قطری عہدیدار نے بھی تصدیق کی کہ یہ معاہدہ جنگ کے خاتمے، اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور انسانی امداد کے داخلے کی راہ ہموار کرے گا۔تاہم اب بھی کئی اہم معاملات غیر واضح ہیں، جیسے کہ حماس کا غیر مسلح ہونا، غزہ کی مستقبل کی حکمرانی، اور یہ کہ دوبارہ جھڑپیں رکوانے کی کیا ضمانتیں دی گئی ہیں۔
اس خبر کے بعد تل ابیب کے “ہوسٹیجز اسکوائر” میں ہزاروں شہری جمع ہوگئے۔ لوگ ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے، نعرے لگا رہے تھے، اور اُن اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کی امید پر جشن منا رہے تھے جو اب بھی غزہ میں حماس کے قبضے میں ہیں۔ایناف زنگاؤکر، جن کے بیٹے متان زنگاؤکر اب بھی یرغمال ہیں، جذباتی انداز میں نعرے لگا رہی تھیں: “ہم متان کو واپس لائیں گے!”ایک مقامی شہری ہلیل مایر نے کہا “ہمارے دل خوشی سے لبریز ہیں، یقین نہیں آتا کہ شاید اب وہ دن آ گیا ہے جب ہمارے لوگ واپس آئیں گے۔”دوسری جانب، سابق یرغمالیوں اور اُن کے اہل خانہ نے بھی جشن میں شرکت کی، مگر ان کے چہروں پر احتیاط آمیز خوشی نمایاں تھی۔
غزہ کی تباہ حال گلیوں میں بھی جنگ بندی کے اعلان پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ خان یونس کے علاقے میں لوگ رات گئے ناصر اسپتال کے قریب جمع ہوئے، تالیاں بجائیں، نعرے لگائے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔علی عارف ابو عودہ نامی شہری نے بتایا “ایسا لگ رہا ہے جیسے میں اڑ سکتا ہوں۔ بس یہ خواب ہے کہ جنگ رک جائے، نقل مکانی ختم ہو، اور ہمارا ڈراؤنا خواب ختم ہو جائے۔ مگر اب ہمارے پاس نہ گھر ہیں، نہ اسکول، نہ یونیورسٹیاں، کچھ نہیں بچا۔”
اسی دوران اسرائیلی فوج نے اپنے جوانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ “ہر ممکن صورت حال کے لیے تیار رہیں”۔ فوج کے عربی ترجمان اویخائے ادرعی نے خبردار کیا کہ فلسطینی شہری شمالی علاقوں کی طرف واپسی نہ کریں جہاں اسرائیلی فوجی موجود ہیں۔صحافیوں کے مطابق غزہ شہر میں بمباری بدستور جاری ہے، جس سے عوام میں خوف اور بے چینی کی کیفیت برقرار ہے۔
اسرائیل میں یرغمالیوں کے اہل خانہ نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ اُن کے پیاروں کی واپسی کا سبب بنے گا۔اوحاد بن امی، جو پہلے ہی رہائی پا چکے ہیں، نے ایک ویڈیو میں کہا “مجھے یقین نہیں آ رہا… لیکن آخرکار وہ گھر آ رہے ہیں۔”جبکہ لیران برمن، جن کے جڑواں بھائی اب بھی غزہ میں قید ہیں، نے کہا “میرے گالی اور زیوی، میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔”صدر ٹرمپ کی ایک ویڈیو بھی منظرعام پر آئی جس میں وہ واشنگٹن میں یرغمالیوں کے خاندانوں سے بات کر رہے تھے، اور انہیں بتا رہے تھے کہ اُن کے پیارے پیر کے روز واپس آئیں گے۔
یہ معاہدہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے حماس کے حملے کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس حملے میں کم از کم 1200 اسرائیلی ہلاک اور 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔اب بھی 48 یرغمالی حماس کی تحویل میں ہیں، جن میں سے کم از کم 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے۔
دوسری طرف، غزہ دو سالہ جنگ سے مکمل طور پر اجڑ چکا ہے۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق 67 ہزار سے زائد افراد جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے شہید ہوئے ہیں،اقوامِ متحدہ کی ایک آزاد رپورٹ میں ستمبر 2025 میں کہا گیا کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کے جرائم کیے ہیں، جسے اسرائیلی حکومت نے سختی سے مسترد کر دیا۔
خان یونس میں ایک کم سن لڑکی نے صحافی سے کہا “ہم دو سال سے جنگ میں جی رہے ہیں۔ اب امید ہے کہ شاید ہم اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ ہم بہت تھک گئے ہیں۔”واٸل رضوان نامی مقامی شخص نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا “جو کوئی بھی خون بہنے سے روکنے کی کوشش میں شریک ہوا، وہ تعریف کے قابل ہے۔”جبکہ ایک اور شہری عبدالمجید عبدربّو نے کہا “پورا غزہ خوش ہے، پورا عرب خوش ہے، دنیا خوش ہے کہ آخرکار جنگ رکنے جا رہی ہے۔”تاہم غزہ کی حکومتی میڈیا آفس نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ سرکاری اعلان سے قبل محتاط رہیں اور اپنی نقل و حرکت محدود رکھیں۔