گزشتہ چند برسوں میں ہمارے معاشرے میں یہ رجحان شدت سے بڑھا ہے کہ جیسے ہی کوئی بڑا جرم رونما ہوتا ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا اسے اپنی اولین ترجیح بنا لیتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز کے طوفان برپا ہو جاتے ہیں، اخبارات کی سرخیاں سنسنی خیز انداز میں لکھی جاتی ہیں اور سوشل میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹس کے ساتھ تصویریں اور ویڈیوز شیئر کی جاتی ہیں۔ بظاہر یہ اطلاع رسانی کا عمل ہے مگر اصل میں یہ ایک ایسا طرزِ عمل ہے جو معاشرتی اقدار، نفسیات اور قانون پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

جب کسی شہر یا علاقے میں جرم ہوتا ہے اور اسے بار بار نشر یا شیئر کیا جاتا ہے تو عوام میں غیر یقینی اور خوف کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ عام آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ جرم ہر جگہ ہے اور وہ کسی وقت بھی نشانہ بن سکتا ہے۔ یہ کیفیت نہ صرف ذہنی دباؤ کو بڑھاتی ہے بلکہ اجتماعی طور پر معاشرے کو غیر محفوظ بنا کر پیش کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ میڈیا اکثر مجرم کے نام، تصویر اور تفصیلات ایسے انداز میں پیش کرتا ہے جیسے وہ کوئی غیر معمولی شخصیت ہو۔ اس عمل سے نادانستہ طور پر مجرم کو شہرت ملتی ہے۔ بعض اوقات لوگ جرم سے زیادہ مجرم کی جرأت یا "کارنامے” کو یاد رکھنے لگتے ہیں۔ اس طرح کے تاثر سے دوسرے افراد کو بھی یہ ترغیب ملتی ہے کہ وہ اسی راستے پر چلیں تاکہ انہیں بھی پہچان مل سکے۔

جرائم کی خبر دیتے ہوئے بعض اوقات میڈیا اس حد تک تفصیل بیان کرتا ہے کہ مجرم کے طریقۂ واردات کی مکمل کہانی سامنے آ جاتی ہے۔ اس سے وہ افراد جو جرم کی طرف میلان رکھتے ہیں، انہیں عملی "رہنمائی” مل جاتی ہے۔ یہ رجحان بالخصوص بینک ڈکیتی، اغوا یا انٹرنیٹ فراڈ جیسے جرائم میں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس سب کے ساتھ ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ جرائم کی مسلسل تشہیر نوجوان نسل پر نہایت برا اثر ڈالتی ہے۔ جب وہ روزانہ قتل، چوری، ڈاکہ یا زیادتی جیسے واقعات دیکھتے اور سنتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں یہ تاثر بیٹھنے لگتا ہے کہ یہ سب "عام” باتیں ہیں۔ یوں جرائم کے خلاف حساسیت کمزور پڑ جاتی ہے اور برائی کے خلاف اجتماعی ردِ عمل دھندلا جاتا ہے۔

میڈیا کا کام حقیقت بیان کرنا ہے، لیکن خبر کو اس انداز میں پیش کرنا کہ وہ خوف و ہراس یا سنسنی پھیلائے، صحافتی اصولوں کے خلاف ہے۔ ایک ذمہ دار میڈیا کو چاہیے کہ وہ جرم کی اطلاع دے مگر اس کو تفریح یا ڈرامے کا رنگ نہ دے۔ بدقسمتی سے آج زیادہ تر میڈیا ہاؤسز اور سوشل میڈیا چینلز ریٹنگ اور ویوز کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خبر کو زیادہ دلچسپ بنانے کے لیے غیر ضروری تفصیلات اور جذباتی تجزیے شامل کیے جاتے ہیں۔ اس دوڑ میں صحافتی اخلاقیات اور معاشرتی ذمہ داری پسِ پشت ڈال دی جاتی ہیں۔ میڈیا کو اپنی زبان، الفاظ اور انداز پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ سخت الفاظ، ڈرامائی بیانات اور خوفناک تصاویر استعمال کرنے سے خبر ایک "تفریحی پیکیج” بن جاتی ہے۔ صحافتی اصول یہ کہتے ہیں کہ جرم کی خبر سادہ، مؤثر اور غیر جانبدار انداز میں دی جائے۔

ریاست پر لازم ہے کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے لیے ایک واضح ضابطۂ اخلاق مرتب کرے۔ ایسا ضابطہ جو بتائے کہ کون سی معلومات عوام تک پہنچانی ضروری ہیں اور کون سی معلومات جرم کو بڑھا سکتی ہیں۔ صرف ضابطہ بنا دینا کافی نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد بھی ضروری ہے۔ اداروں کو سختی کے ساتھ نگرانی کرنی ہوگی تاکہ میڈیا ریٹنگ کی خاطر قانون کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اگر کوئی چینل یا پلیٹ فارم جرم کی غیر ضروری تشہیر کرے تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔

اگر جرم کی خبر دینی ہی ہے تو اسے اس طرح پیش کیا جائے کہ عوام کو اس سے سبق ملے۔ مثال کے طور پر اگر کسی علاقے میں ڈکیتی ہوئی ہے تو اس کے ساتھ عوام کو حفاظتی تدابیر سے بھی آگاہ کیا جائے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ جرم کے طریقۂ واردات پر نہیں بلکہ اس کے اسباب پر بات کرے۔ مثلاً بے روزگاری، غربت، منشیات یا سماجی ناانصافی جیسے عوامل پر روشنی ڈالی جائے تاکہ اصل بیماری کا علاج ہو سکے۔ جرائم کی خبر کے ساتھ عوامی شعور اجاگر کرنا بھی ضروری ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ جرم سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور اگر جرم ہو جائے تو کس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کیا جائے۔

آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جرم کی خبر دینا ایک صحافتی ضرورت ہے، مگر اس خبر کو اس انداز میں پھیلانا کہ معاشرہ خوف زدہ ہو یا مجرم ہیرو بن جائے، نہایت خطرناک ہے۔ خبر کا مقصد عوامی شعور بیدار کرنا ہونا چاہیے، نہ کہ ریٹنگ بڑھانا یا سنسنی خیزی پھیلانا۔ اگر میڈیا اور ریاست دونوں اپنی ذمہ داری پوری کریں تو جرائم کی تشہیر کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے اور خبر کو معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔

Shares: