دنیا بھر میں سرکاری ملازم قانون کا پاسدار اور آئین کا پابند ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں سرکاری ملازم آئین شکنی اور لاقانونیت کو اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔
انتظامی افسران کہتے پھر رہے ہیں کہ روزے اور عید ہے اس لیے تجاوزات کے خلاف ہم سختی نہیں کر رہے جبکہ جہاں جہاں نرمی کی جا رہی ان تمام تجاوزات مافیا کا کہنا ہے کہ یہ نرمی اللہ واسطے نہیں بلکہ انتظامیہ کو "ایڈوانس عیدی” دے کر ہی بازاروں اور سڑکوں پر دکانداری کی اجازت دی جاتی ہے۔ سرکاری ریڑی بازار کی ریڑھیاں فٹ پاتھ سے سڑک پر آچکی ہیں جبکہ دیگر رکشہ ریڑی والے تو بیچ سڑک دکان چلا رہے ہیں۔ افطاری کے نام پر ویڈیوشوٹ اور دکھاوا کرنے والے گلیوں اور سڑک کی ایک سائیڈ بند کردیتے ہیں کہ افطاری ہورہی ہے۔ ڈپٹی کمشنر اور ٹریفک پولیس ان جعل سازوں کو کس کپیسٹی میں چار سے سات تین گھنٹے کیلئے مین شاہراہ بند کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔
تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے بیس منٹ کا فاصلہ پچاس منٹ میں طے ہورہا ہے۔انہی وجوہات سے رمضان میں ٹریفک حادثات کے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ ایک دوست کی طرف افطاری پر گیا تو دیکھا کہ پنجاب پولیس کے تھانوں میں دی گئی گاڑی بغیر نمبر پلیٹ کھڑی تھی۔ گاڑی کے چاروں اطراف پنجاب پولیس کا لوگو اور نام لکھا تھا لیکن گاڑی نمبر یا کوئی شناخت نہیں تھی میزبان سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ آئی جی آفس کی ایک برانچ کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہے۔ اس وقت لگ بھگ پچاس اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ایک سو کے قریب سپرنٹنڈنٹ ہیں جن میں سے بہت ساروں کو ایسے پولیس ڈالے دیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نان یونیفارم ملازمین/آفس ورک نوکری والوں کو یونیفارم پولیس کا ڈالہ دینا اختیارات سے تجاوز اور لاقانونیت کی انتہا نہیں۔
میں کم از کم پانچ دفعہ لکھ چکا ہوں کہ بلانمبر پلیٹ گاڑیاں سنگین جرم ہے جس پر وزیراعظم، وزارت داخلہ اور وزیراعلیٰ پنجاب نے سخت کاروائی کا حکم دیا لیکن موثر کاروائی نہیں ہو رہی۔ گذشتہ دنوں ایک سنئیر آفیسر کے ساتھ رائیونڈ جانے کا اتفاق ہوا تو جاتی عمرہ چوک پٹرول پمپ کے بالکل سامنے کم از بیس بغیر نمبر پلیٹ لوڈر اور مسافر بردار رکشے کھڑے تھے۔ یہ تین دفعہ کے وزیراعظم نواز شریف اور موجودہ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے گھر کی طرف جانے والے سڑک کے چوک کا عالم ہے۔ کیا بنا نمبر پلیٹ رکشے اور گاڑیاں سکیورٹی ٹھریٹ نہیں؟ مجھے اس آفیسر نے بتایا کہ رمضان سے چند روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب نے اندرون لاہور کا دورہ کیا تو بے ہنگم ٹریفک جام پر وزیراعلیٰ نے سی ٹی او لاہور کو Displeasure بھیجنے کو کہا۔ وزیراعلیٰ آفس کی طرف سے Displeasure کے جواب میں دو دو عہدے انجوائے کرنے والے سی ٹی او نے وزیراعلیٰ آفس کے متعلقہ آفیسر کو وربل جواب دیا کہ وزیراعلیٰ رش والے ٹائم آئیں تو میں کیا کرتا۔ جو سی ٹی او اپنی غلطی تسلیم کرنے اور ٹریفک پولیس کے معاملات میں بہتری کی بجائے یہ کہے کہ رش والے اوقات میں وہ کیا کرے وہاں ٹریفک پولیس میں بہتری کی امید چھوڑ دیں۔ ایسا لگتا ہے پنجاب ٹریفک پولیس نے پورے پنجاب میں سڑکوں کو تجاوزات مافیا اور ناجائز پارکنگ کے اڈے اور بنا نمبر پلیٹ سفر کرنے والے دہشت گردوں کی جنت بنا دیا ہے۔
پولیس ناکوں پر تعینات اہلکار ایک ایک گاڑی کو روک کر سونگھتے ہیں اور ہر گزرنے والے کا ایکسرے کرتے ہیں انکو بلانمبر پلیٹ گاڑیاں کیوں نظر نہیں آتی۔ بغیرنمبر پلیٹ گاڑی چاہے سرکاری ہو یا غیر سرکاری رکشہ ہو یا موٹر سائیکل سب کے خلاف ایف آئی آر دے کر پابند سلاسل کیا جائے۔اسسٹنٹ کمشنر، اے ڈی سی آر پولیس اور ٹریفک پولیس کی اپنی گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ ہیں جن کی نمبر پلیٹ ہیں انہوں نے بھی نمبر کے آگے راڈ لگا کر نمبر کو چھپایا ہوتا ہے ۔ کیا یہ سول ملازمین کوئی خفیہ ایجنسی ہیں جو نمبر پلیٹ نہیں لگا رہے ؟آنکھوں کو چندیا دینے والی غیر نمونہ فلیشر لائٹ سے حادثات ہو رہے ہیں لیکن کاروائی نہیں ہو رہی۔
جناب چیف آف آرمی سٹاف آپ کے افسران اور جوان ان سول افسران کی لاقانونیت کی وجہ سے دہشت گردوں کا سافٹ ٹارگٹ بن کر شہید ہو رہے ہیں۔ جناب چیف آف آرمی سٹاف آپ ان افسران اور جوانوں کی شہادتوں کا بدلہ دہشت گردوں سے تو لے رہے ہیں لیکن فرائض سے غفلت کرکے اور بنا نمبر پلیٹ قانون شکن اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے گرد گھیرا کب تنگ کریں گے؟۔
جناب چیف آف آرمی سٹاف اور وزیراعظم آپ دونوں کی کوششوں سے غیر ملکی سرمایہ کاری آرہی ہے لیکن سرکاری ملازمین کی مجرمانہ غفلت، کرپشن اور لاقانونیت سے تنگ آکر مقامی سرمایہ کار بھی ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں تو بیرونی سرمایہ کاروں کو کیسے اعتماد دلائیں گے۔