پشاور کے علاقے ارمڑ میں مسجد کے باہر نصب آئی ای ڈی بم دھماکے میں معروف عالمِ دین مفتی منیر شاکر جاں بحق ہو گئے، جبکہ ان کے ذاتی محافظ سمیت دیگر افراد زخمی ہوئے۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد ان کے بیٹے عبداللّٰہ شاکر نے پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں لیکن اس کے باوجود انہیں سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔
عبداللّٰہ شاکر کا کہنا تھا کہ مفتی منیر شاکر نے ہر ممکنہ فورم پر درخواست دی کہ انہیں جان کا خطرہ لاحق ہے، مگر نہ انہیں اسلحہ لائسنس دیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی سیکیورٹی مہیا کی گئی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے والد کو بغیر کسی تحفظ کے دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔جب تک کوئی مجھے مطمئن نہ کرے والد کی تدفین اجازت نہیں دونگا،
کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) پشاور قاسم علی خان نے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مفتی منیر شاکر کے پاس ان کے ذاتی محافظ موجود تھے اور دھماکے میں ان کے گارڈ بھی زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی ڈویژن سے چیک کیا جا رہا ہے کہ ان کے پاس کتنی سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔سی سی پی او نے اس بات کی تصدیق کی کہ مفتی منیر شاکر دھماکے کا براہِ راست ہدف تھے اور اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اس واقعے کی مشترکہ تحقیقات کر رہے ہیں تاکہ اس کے محرکات اور ممکنہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے مسجد کے باہر ہونے والے اس بم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے پولیس حکام سے فوری طور پر رپورٹ طلب کر لی ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں واقعے میں ملوث عناصر کی گرفتاری کے لیے ضروری اقدامات کی ہدایت کی اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
یہ واقعہ پشاور میں امن و امان کی صورتحال پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے، جہاں علماء اور دیگر نمایاں شخصیات عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف مزید مؤثر اقدامات اٹھائیں اور علماء سمیت ہر شہری کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں۔