27 اکتوبر اور پندرہ لاکھ کا لشکر۔حقیقت ، جواد سعید کا بلاگ

27 اکتوبر اور پندرہ لاکھ کا لشکر۔حقیقت ۔ بقلم جواد سعید

سوتروں کے انوسار مولانا فضل الرحمن صاحب نے ستائیس اکتوبر کو اسلام آباد دھرنا دینے کی گوشنا کر دی ہے۔
لیکن یہ اعلان اتنا ہی کھوکھلا لگ رہا جتنا کہ قوم یوتھ سوچ رہی ہے۔
مدارس کے دو ہی شعبے پاکستان میں کام کر رہے ۔تنظیم المدارس۔جنھوں نے حمایت کا انکار کر دیا ہے۔
اور دوسرا وفاق المدارس۔جن کے مطابق ملک بھر میں مولانا کے حمایت یافتہ مدارس ڈھائی سے تین ہزار ہیں۔
اگر ایک مدرسے سے 200 بندے بھی آئیں تو تعداد بنتی ہے پانچ سے چھ لاکھ۔
مطلب واضح ہے انکا اعلان صرف پھڑ تک محدود تھا۔
اسلام آباد آنے کے دو ہی راستے ہیں
ایک خیبر پختونخواہ دوسرا براستہ پنجاب۔
خیبرپختونخوا والا راستہ تو وزیر اعلی خیبر پختونخواہ نے بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے
اور دوسرا پنجاب والا راستہ جلد ہی بند کرنے کی اطلاعات موصول ہو سکتی ہیں۔

اب آتے ہیں بجٹ کی جانب کہ مہنگائ میں پسی عوام کیا اس دھرنے میں پہنچ سکتی ہے۔؟؟

پندرہ لاکھ افراد کے حساب سے اگر ایک گاڑی میں پانچ بندے سوار ہوتے ہیں تو تقریباً تین لاکھ گاڑیاں اسلام آباد پہنچیں گی۔
اور ہر گاڑی پر پانچ سے چھ ہزار کا پٹرول خرچ ہو تو کم ازکم ڈیڑھ ارب روپے خرچہ آئے گا
اور پھر پندرہ لاکھ شرکاء پر کھانے پینے کا خرچہ کم ازکم 70 کروڑ یومیہ ہے
اب کم ازکم پورا ہفتہ بھی یہ دھرنا اسلام آباد رکتا ہے تو سات ارب روپے صرف کھانے پر خرچ، ہو سکتے۔
جو کہ عوام کے بس سے باہر ہے۔
اور اگر یہ اتنے پیسوں کا انتظام کر ہی لیتے ہیں تو کرپشن مافیا کیطرح نیب کے چنگل میں بآسانی پھنس سکتے۔

اب آتے ہیں اس سوال پر کیا اپوزیشن اس دھرنے میں مدد کرے گی؟؟

یاد رکھیں یہ دھرنا سارے کا سارا جمیعت کے مدارس مولویوں پر مشتمل ہو گا
یقینی سوچ ہے کہ بلاول بھٹو اس دھرنے میں کیونکر شریک ہو گا۔؟؟ سندھ سے عوام کیسے آ پائے گی۔؟؟
شہباز شریف معذرت کر چکے بلاول کو یہ سمجھاتے ہوئے کہ دھرنے سے حکومت تبدیل نہیں ہوتی۔
اور مولانا کی سب سے بڑی کمزوری مذہب کارڈ ہے۔جس کو اپوزیشن سیاست میں مانتی نہیں ۔اگرچہ نواز شریف نے حمایت کا اعلان کیا ہے۔مگر پھر بھی یقین سے کہا جا سکتا کہ نواز شریف جیسا مکار سیاست دان اس جیسے بکرے کو صرف حلال ہوتا دیکھ سکتا مگر ساتھ حلال نہیں ہو سکتا۔اور نہ ہی اپنی عوام بھیج کر خود سے متنفر کروائے گا۔
اور تازہ خبر کے مطابق ایجنسی جمیعتی مدارس کا ریکارڈ سرکار کو دے رہی۔اور یہی کام تابوت پر آخری کیل ٹھوکنا ہے۔
اور اگر ان سب کے بعد بھی یہ دھرنا دے بھی دیتے ہیں تو انکا وہی حال ہو گا۔
جو الشیخ خادم رضوی صاحب کے دھرنے کیساتھ ہوا تھا شاید۔واللہ اعلم

Comments are closed.