جوانوں کے بہنے والے خون کا حساب کون دے گا؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور انتشار نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں عوام کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان بھی براہ راست خطرے میں ہیں۔ حالیہ واقعات نے اس صورتحال کی سنگینی کو مزید اجاگر کیا ہے۔ اسلام آباد میں شرپسند عناصر کی جانب سے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھانے کے نتیجے میں چار جوان شہید ہو گئے جبکہ دو پولیس اہلکاروں کو مظاہرین کے تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ ان واقعات میں 100 سے زائد پولیس اور رینجرز کے جوان زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے کئی کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ یہ خون خاک میں ملتا جا رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان بہادر جوانوں کے بہنے والے خون کا حساب کون دے گا؟

حکومت کی کمزور حکمت عملی اور ریاستی رٹ کی کمی کے باعث شرپسندوں کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ سنگجانی ٹول پلازہ پر مظاہرین کی جانب سے سرکاری املاک پر قبضہ اور لوٹ مار، نسٹ یونیورسٹی میں توڑ پھوڑ اور دیگر پرتشدد کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ قانون کی بالادستی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز ان تمام واقعات کی گواہ ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت محض بیانات تک محدود ہے۔

فارن فنڈنگ کیس جو کئی سالوں سے حکومتی میز پر دھرا ہوا ہے، ان موجودہ حالات کی ایک اہم وجہ ہے۔ اگر حکومت وقت پر اس کیس پر کارروائی کرتی اور ذمہ داروں کو سزا دیتی تو شاید آج ملک اس افراتفری کا شکار نہ ہوتا۔ لیکن پچھلے کئی سالوں سے تمام ثبوتوں کے باوجود اس کیس پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ کیا یہ حکومتی کمزوری نہیں؟

شرپسندوں کے سری نگر ہائی وے تک پہنچنے، رکاوٹیں عبور کرنے اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے جیسے واقعات ریاست کی رٹ پر سوالیہ نشان ہیں۔ یہ مظاہرین نہ صرف قومی املاک کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ ان کے حملے ریاستی اداروں کے وقار کو بھی مجروح کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں صرف مذمتی بیانات دینا عوام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔

شہید ہونے والے رینجرز اور پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ انصاف کے منتظر ہیں۔ زخمی اہلکاروں کے علاج کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنا حکومتی بے حسی کو عیاں کرتا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معصوم جوانوں کے خون کا حساب لے اور ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ اگر حکومت ان حالات کو قابو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، تو اسے اپنی ناکامی قبول کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے۔

آج کا پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ عوام، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ریاستی مشینری سب اس سوال کے گرد گھوم رہے ہیں: "جوانوں کے بہنے والے خون کا حساب کون دے گا؟” کیا حکومت ان سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار ہے یا محض خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ عوام کے دلوں میں اٹھنے والے یہ سوالات جواب کے منتظر ہیں اور یہ خاموشی مزید دیر تک برداشت نہیں کی جا سکتی۔

Shares: