ہم نے کتنے دھوکے میں سب جیون کی بربادی کی
گال پہ اک تل دیکھ کے ان کے سارے جسم سے شادی کی
ضمیر جعفری
پیدائش:01 جنوری 1916ء
جہلم، پاکستان
وفات:12 مئی 1999ء
نیو یارک، ریاستہائے متحدہ امریکہ
سید ضمیر حسین شاہ نام اور ضمیر تخلص تھا۔ 01 جنوری 1916ء کو پیدا ہوئے۔ آبائی وطن چک عبدالخالق ، ضلع جہلم تھا۔ اسلامیہ کالج، لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ فوج میں ملازم رہے اور میجر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ راول پنڈی سے ایک اخبار’’بادشمال‘‘ کے نام سے نکالا۔ کچھ عرصہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سے منسلک رہے۔ پاکستان نیشنل سنٹرسے بھی وابستہ رہے۔ ضمیر جعفری دراصل طنزومزاح کے شاعرتھے۔کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے سنجیدہ اشعار بھی کہہ لیتے تھے۔ یہ نظم ونثر کی متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ 12؍ مئی1999ء کو نیویارک میں انتقال کرگئے۔ تدفین ان کے آبائی گاؤں چک عبدالخالق میں ہوئی۔ ان کی مطبوعہ تصانیف کے نام یہ ہیں:’’کارزار‘‘، ’’لہو ترنگ‘‘، ’’جزیروں کے گیت‘‘، ’’من کے تار‘‘ ’’مافی الضمیر‘‘، ’’ولایتی زعفران‘‘، ’’قریۂ جاں‘‘، ’’آگ‘‘، ’’اکتارہ‘‘، ’’ضمیر یات‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:50
غزل
۔۔۔۔۔
ہم زمانے سے فقط حسن گماں رکھتے ہیں
ہم زمانے سے توقع ہی کہاں رکھتے ہیں
ایک لمحہ بھی مسرت کا بہت ہوتا ہے
لوگ جینے کا سلیقہ ہی کہاں رکھتے ہیں
کچھ ہمارے بھی ستارے ترے دامن پہ رہیں
ہم بھی کچھ خواب جہان گزراں رکھتے ہیں
چند آنسو ہیں کہ ہستی کی چمک ہے جن سے
کچھ حوادث ہیں کہ دنیا کو جواں رکھتے ہیں
جان و دل نذر ہیں لیکن نگہ لطف کی نذر
مفت بکتے ہیں قیامت بھی گراں رکھتے ہیں
اپنے حصے کی مسرت بھی اذیت ہے ضمیرؔ
ہر نفس پاس غم ہم نفساں رکھتے ہیں
غزل
۔۔۔۔۔
اپنی خبر نہیں ہے بجز اس قدر مجھے
اک شخص تھا کہ مل نہ سکا عمر بھر مجھے
شعلوں کی گفتگو میں صبا کے خرام میں
آواز دے رہا ہے کوئی ہم سفر مجھے
شاید انہیں کا عجز مرے کام آ گیا
جن دوستوں نے چھوڑ دیا وقت پر مجھے
شب کو تو ایک قافلۂ گل تھا ساتھ ساتھ
یا رب یہ کس مقام پہ آئی سحر مجھے
ہنستے رہے فلک پہ ستارے زمیں پہ پھول
اچھا ہوا کہ عمر ملی مختصر مجھے
مدت کے بعد اس نے سر انجمن ضمیرؔ
دیکھا نگاہ عام سے اور خاص کر مجھے
اشعار
۔۔۔۔۔
بہن کی التجا ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے
وفائے دوستاں بہر مشقت ساتھ چلتی ہے
اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے
جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے
ہم نے کتنے دھوکے میں سب جیون کی بربادی کی
گال پہ اک تل دیکھ کے ان کے سارے جسم سے شادی کی
ہنس مگر ہنسنے سے پہلے سوچ لے
یہ نہ ہو پھر عمر بھر رونا پڑے
ایک لمحہ بھی مسرت کا بہت ہوتا ہے
لوگ جینے کا سلیقہ ہی کہاں رکھتے ہیں
ان کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاق دید
میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھلا
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت