پچھلے دنوں بھائی کے لیے ایک گھر رشتہ دیکھنے گئے اچھی اور دینی فیملی تھی بھائی ان کو پسند تھا تو ہمیں انہوں نے لڑکی دکھانے کے لیے گھر بلایا تھا اللہ کی قدرت لڑکی بھی والدہ کو پسند آگئی جب کچھ دن بعد ہم نے مشورہ کرکے ان سے کہا کہ جی بیٹی پسند ہے تو آگے سے ان کا جواب تھا کہ جی ہم کو بھی آپ کی فیملی، لڑکا پسند ہے مگر گھر آپ کا رینٹ پہ ہے ۔ میں نے اپنی طرف سے تھوڑی سی کوشش کی کہ قائل ہو جائیں اور یہ والی بات نکال دیں میں نے ان سے عرض کیا کہ جی میرا بھائی اچھا کماتا ہے لاکھ سے اوپر ماہانہ انکم ہے سوسائٹی میں اچھا گھر ہے آپ کی بیٹی کو خوش رکھے گا عزت و احترام سے زندگی بسر ہو گی ۔
پھر ایک اور دلیل دے ڈالی کہ دیکھیں آپ کوشش کرکے وہ فیملی ڈھونڈ ہی لیتے ہیں جہاں آپ کی دیگر بے شمار شرائط کے ساتھ یہ اپنے گھر والی شرط بھی پوری ہوتی ہو تو خدانخواستہ کل کو ان کے کاروباری حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ ان کو گھر سیل کرنا پڑتا ہے تو کیا آپ اپنی بیٹی واپس لے آئیں گے کہ جی آپ کا گھر بک گیا ہے اس لیے ہم اپنی بیٹي واپس لے کر جا رہے ہیں ۔
ان باتوں سے وہ اپنے اس فیصلے سے تھوڑا سا پیچھے ہٹے تو ساتھ ہی نئی شرط آگئی کہ لڑکے کو لڑکی خود اوکے کرے گی یعنی لڑکا لڑکی کے گھر جائے اور لڑکی اس سے بات چیت کرکے پھر فائنل کرے گی کہ اس نے شادی کرنی ہے یا نہیں ۔ یہ سٹوری میں کوئی من گھڑت نہیں سنا رہا بلکہ انتہائی دینی گھرانے کی کہانی سنا رہا ہوں ۔
یہ آب بیتی سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت چل پڑا ہے اور اس بے راہ روی کی آخر منزل کیا ہو گی ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ رشتے اتنے مشکل ہوتے جا رہے ہیں اعتبار اٹھتے جا رہے ہیں بھروسے ماند پڑتے جا رہے ہیں آخر کیوں جگہ جگہ میرج بیورو سینٹر کھل رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کون سے اعمال کر رہے ہیں ؟
کیا کبھی ہم میں سے کسی نے غور کیا ؟ یا ایسے اعمال کی روک تھام کے لیے کوئی فورم قائم کیا گیا ؟ یا کسی اصلاحی تنظیم یا ادارے کی طرف سے ایسی ورکشاپس منعقد کی گئیں جس میں اس سارے عمل کی شرعی طور پہ ٹریننگ کروائی جائے کہ ہمارا دین اسلام اس حساس معاملے میں ہماری کیا تربیت کرتا ہے ؟ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر اپنے عزیز و اقارب میں رشتہ کرنے سے لوگ کترا رہے ہیں ؟
میں بہت دور کی کوئی مثال نہیں سناتا گزشتہ چند سالوں کی ایک سنہری مثال سناتا ہوں کہ ہمارے جاننے والوں میں ایک بہت ہی نیک بزرگ تھے جو اب وفات پا چکے ہیں وہ اپنی ہمشیرہ کے گھر گئے اور ان کی بیٹی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ میری ہے ان کی ہمشیرہ نے کہا جی ٹھیک ہے بھائی صاحب یہ آپ کی ہو گئی اس گفتگو کے کچھ عرصہ بعد ہی وہ دوبارہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہمشیرہ کے گھر پہنچے اور کہا کہ ’’ میری امانت آپ کے پاس تھي میں وہ لینے آگیا ہوں میری امانت دے دو بہن ‘‘! ان کی ہمشیرہ نے کہا جی آپ کی ہی ہے لے جائیں ، وہاں فوری نکاح ہوا اور بیٹی کی رخصتی کردی گئی سبحان اللہ کیا سادگی اور کیا پیار محبت تھی کہ بھائی نے مانگی بہن نے دے دی ۔ نہ کوئی لمبی چوڑی بحث و تکرار اور نہ ہی کوئی لمبی چوڑی ڈیمانڈیں ۔
آج تو سارا معاملہ ہی الٹ ہو چکا ہے سب سے پہلے تو ہم اپنے قریبی عزیز و اقارب کے گھروں میں دیکھتے ہی نہیں ہیں کہ کوئی ہمارے بیٹے یا ہماری بیٹی کا ہم عمر موجود ہے تو اس کی طرف رشتہ بھیج دیا جائے اور اگر کہیں رشتہ بھیج بھی دیا جائے تو آگے سے ایسے ایسے معاملات سامنے آتے ہیں کہ بھیجنے والا پچھتاتا ہی ہے کہ میں نے کس وقت یہ رشتہ بھیج دیا نہ ہی بھیجتا ۔
خاندان میں بیٹیوں کے سروں میں چاندی اتر رہی ہے اور یہ بیٹے والا خاندان سے باہر کوئی امیر کبیر باپ کی لڑکی تلاش کر رہا ہے تاکہ جہیز کے ٹرک اور لمبی چوڑی ڈیمانڈ کی لسٹیں منگوائی جا سکیں خاندان والے تو یہ کام کرنے سے رہے ۔ لالچ اور ہوس نے دنیا کو اندھا کر دیا ہے یہ رشتہ نہیں کرتے بلکہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا سودا کرتے ہیں یہ رشتہ لینے نہیں جاتے بلکہ بیٹي فار سیل یا بیٹا فار سیل کا اعلان کرتے ہیں اور درمیان میں بیٹھے میرج بیورو والے دلال پوری بروکری کا حق ادا کرتے ہیں ایک دوسرے کے سامنے ایسے بڑھا چڑھا کر جھوٹ بیان کریں گے کہ شادی کے بعد جب سچ کھل کر سامنے آتا ہے تو پھر پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور گھر والے سر پکڑے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اب تو کچھ ہو نہیں سکتا جب دولت تو ہمیں مل جاتی ہے مگر بیٹی کو شوہر ڈرگز لینے والا مل جاتا ، دولت تو مل جاتی ہے مگر بیٹی کو شوہر مار کٹائی کرنے والا ظلم و تشدد کرنے والا ملتا ہے مگر تب باپ دولت کو دیکھ کر کہتا ہے کہ اے کاش کہ میں نے لالچ نہ کیا ہوتا دولت کی ہوس نے اندھا کردیا تھا مگر نکاح کے بعد جب بہت سے راز افشا ہوتے ہیں تو ماں باپ کی راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں ۔
کیا اس سے ہزار درجے بہتر یہ بات نہیں تھی کہ اپنے ہی کسی بھانجے یا بھتیجے سے یا کسی قریبی یا دور کے رشتہ دار سے جو کہ دیندار ہو سمجھ بوجھ رکھنے والا ہے ہنر مند ہو حق حلال کا روزگار ہو عزت و احترام کرنے والا ہو سلجھا ہوا اس سے بغیر کسی لالچ کے بغیر کسی ڈیمانڈ کے رشتہ کردیا جاتا تو آج ہماری بیٹی خوش ہوتی اپنے گھر میں مسکراتی ہوتی خوشیوں سے کھيلتی ہوتی ۔
مگر کیا کریں ماں باپ کی ڈیمانڈوں کا جنہوں نے بیٹوں بیٹیوں کے سروں پہ چاندی تو اتار دی ان کو حرام کی طرف مائل تو کردیا ان کو حرام کی دوستیوں کے راستے تو دکھا دئیے مگر اپنی شرائط کو کم نہ کیا اپنی ڈیمانڈوں کو کم نہ کیا یقین جانیں رشتہ کرتے وقت لڑکا لڑکی کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہوتی ان کی یہی ایک ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ ان کا نکاح کردیا جائے اور وہ بھی کسی طرح سے بھي جلد از جلد کیوں کہ وہ بے راہ روی کا شکار نہیں ہونا چاہتے وہ حرام کی طرف نہیں جانا چاہتے وہ موبائل کے راتوں کے پیکجز میں الجھ کر راتوں کا سکون برباد نہیں کرنا چاہتے ، رشتہ کرتے وقت جو کچھ بھی ہوتا ہے ہر قسم کی شرط ہر قسم کی ڈیمانڈ یا تو لڑکا / لڑکی کے والد کی طرف سے ہوتی ہے یا والدہ کی طرف اور اگر کبھي لڑکا لڑکی یہ کہہ بھي ڈالیں کہ آپ یہ شرط کیوں رکھ رہے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ آپ کے روشن مستقبل کے لیے ہی کر رہے ہیں جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی اونچے امیر کبیر گھرانے میں رشتہ کریں تاکہ خاندان والوں میں دھاک بیٹھ جائے کہ عبداللہ نے رشتہ بہت ہی کمال کی جگہ پہ کیا ہے ۔
حالانکہ انہی امیر کبیر گھروں میں دولت تو ہوتی ہے عیش و عشرت تو ہوتا ہے مگر پیار محبت ، سکون و راحت اخلاص یہ کچھ نہیں ہوتا سب کچھ دکھلاوے کا ہوتا ہے ۔ الا ماشاءاللہ
تو محترم قارئین میں اپنے قلم کے ذریعے آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی کو روک سکیں آنکھوں میں حیا اور دلوں میں نور ایمان چاہتے ہیں تو اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے سودے کرنا چھوڑ دیں ، میرج بیورو کی دلالیوں سے نکلیے ، جہیز کی لمبی لمبی لسٹوں کو پھاڑ ڈالیے ، مہنگی اور نہ پوری ہونے والی ڈیمانڈوں کو دیوار پہ دے ماریے ، اور سب سے پہلے دین داری کی بنیاد پر اور اپنے قریبی عزیز و اقارب میں رشتہ تلاش کیجیے اگر ان میں نہ ملے تو پھر خاندان سے باہر بغیر کسی ذات پات کے جھنجٹ میں الجھنے کے دین کی بنیاد پر رشتہ کیجیے مسنون طریقوں کو اپنائیے کم خرچ سادہ بیاہ یہ طریقہ عام کیجیے ! ہم سادہ نکاح کے نام پہ مسجد میں سادہ نکاح کر لیتے ہیں مگر اگلے دن رخصتی مہندی اور بارات رخصتی کے چکروں میں لاکھوں اڑا دیتے ہیں اور پھر کہتے پھرتے ہیں کہ نکاح مسنونہ کیا ہے سادہ نکاح کیا ہے وہ بھی مسجد میں ، ہم اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے اللہ ہمارے ایک ایک قدم اور ہر ایک عمل کو دیکھنے والا ہے ہمارے دلوں کے رازوں کو جانتا ہے سادہ نکاح میں مہندی ، بارات اور ان کے ساتھ جڑی درجن بھر ہندوؤانہ رسمیں شامل نہیں ہوتیں ۔
یقین کیجیے! ہمارے بچوں کی جوانیاں ڈھلتی جا رہی ہیں مگر ہم اپنی شرائط منوانے کے چکروں میں پھنسے ہیں، اپنے بچوں پہ ظلم نہ کیجیے ان کو ڈپریشن کا شکار نہ کیجیے صبر کرکرکے ان کے اعصاب شل ہو چکے ہیں وہ تو شرم و حیا کے ہاتھوں مجبور آپ کو ڈائریکٹ کہہ بھي نہیں سکتے کہ امی جان ابو جان میری شادی کردیجیے ! وہ تو صرف صبر کر سکتے ھیں آپ کی شرائط کے آگے آپ کی ضد کے آگے آپ کے اونچے اونچے کھوکھلے خوابوں کے آگے !