بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر کریم خان پر جنسی بدسلوکی کا الزام لگانے والی خاتون کو قطری حکومت سے منسلک ایک خفیہ انٹیلی جنس آپریشن کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس خفیہ کارروائی میں نجی جاسوسی کمپنیوں نے خاتون اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں حساس معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
گارڈین کے مطابق، افشا شدہ دستاویزات اور ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ لندن کے علاقے مے فیئر میں قائم کمپنی ہائی گیٹ (Highgate) نے ایک اور نجی فرم کے ساتھ مل کر یہ کارروائی چلائی۔ اس آپریشن کا مقصد مبینہ طور پر متاثرہ خاتون کی ساکھ کو نقصان پہنچانا اور ان کے الزامات کو کمزور ثابت کرنے کے لیے شواہد تلاش کرنا تھا۔ذرائع کے مطابق، ہائی گیٹ نے خاتون کے پاسپورٹ، سفری ریکارڈ، آن لائن اکاؤنٹس کے پاس ورڈز اور حتیٰ کہ ان کے بچے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ان معلومات میں سے کچھ مبینہ طور پر "ڈارک ویب” سے حاصل کردہ ہیک شدہ ڈیٹا سے لی گئی تھیں۔دستاویزات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہائی گیٹ نے ایک دوسری کمپنی ایلیشیئس انٹیلی جنس (Elicius Intelligence) کی خدمات حاصل کیں، جس نے متاثرہ خاتون، ان کے شوہر، ان کے والدین اور دیگر آئی سی سی اہلکاروں کے بارے میں ذاتی معلومات پر مشتمل متعدد رپورٹس تیار کیں۔
گارڈین کے مطابق، اس خفیہ کارروائی کا حکم قطر کی ایک اعلیٰ سطحی سفارتی یونٹ نے دیا تھا۔ ہائی گیٹ کے بعض سینیئر افسران کو بتایا گیا کہ ان کا حقیقی مؤکل ایک "قطری یونٹ” ہے، اور مالی وسائل کو "انتہائی حساس” قرار دیا گیا۔دستاویزات میں ظاہر ہوا کہ ایک موقع پر کمپنی نے خاتون اور ان کے اہل خانہ کو اسرائیل یا اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے جوڑنے کی کوشش کی، مگر کوئی ثبوت نہیں ملا۔ہائی گیٹ نے گارڈین کو دیے گئے بیان میں تصدیق کی کہ وہ "آئی سی سی سے متعلق ایک منصوبے” پر کام کر رہی تھی، لیکن اس نے اس بات کی تردید کی کہ اس نے کسی شخص کے خلاف کارروائی کی یا یہ کہ منصوبہ "قطری حکومت” نے کمیشن کیا تھا۔
برطانوی وکیل کریم خان، جو 2021 سے آئی سی سی کے پراسیکیوٹر ہیں، ان پر ایک خاتون ملازم نے جنسی زیادتی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات عائد کیے تھے۔ متاثرہ خاتون کے مطابق یہ واقعات خان کے دفتر، ہوٹل کے کمروں اور ان کی رہائش گاہ پر پیش آئے۔خان نے تمام الزامات کو "من گھڑت” قرار دیا ہے اور ان کے قریبی ذرائع کے مطابق، یہ الزامات اسرائیل کی حمایت یافتہ ایک "بدنامی مہم” کا حصہ ہیں۔ خیال رہے کہ خان نے 2024 میں اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یواف گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم کے وارنٹ جاری کیے تھے، جس کے بعد امریکا اور اسرائیل دونوں نے ان پر شدید دباؤ ڈالا۔
اقوامِ متحدہ کا ایک نگران ادارہ فی الحال ان الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ایک دوسری خاتون بھی خان کے خلاف اپنے سابقہ تجربے کی بنیاد پر سامنے آئی ہیں۔گارڈین کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ خان نے خود اس جاسوسی کارروائی میں کوئی کردار ادا کیا ہو، تاہم بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ہائی گیٹ کے نمائندوں نے خان کے قریبی حلقے سے ملاقات کی تھی۔خان کے وکلاء نے تصدیق کی کہ ملاقات ہوئی تھی، لیکن کہا کہ خان یا ان کے کسی نمائندے کو خفیہ آپریشن کی نوعیت کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔
خاتون نے گارڈین سے گفتگو میں کہا کہ وہ اس صورتحال سے "دہشت زدہ اور دل شکستہ” ہیں۔”یہ ناقابلِ یقین اور تکلیف دہ ہے کہ نجی انٹیلی جنس فرموں کو مجھے نشانہ بنانے کا حکم دیا گیا۔ اگر یہ بین الاقوامی انصاف کی حقیقت ہے تو میں نہیں جانتی یہ نظام کس کے لیے کام کر رہا ہے۔”خاتون تقریباً ایک سال سے اقوامِ متحدہ کی تحقیقات کے نتائج کی منتظر ہیں اور ان کے بقول، "میں نے ہمیشہ خاموشی سے کام کیا ہے۔ میں خدمت کے لیے آئی تھی، دکھائی دینے کے لیے نہیں۔”








