جس طرح انرجی کے شعبے کو ہینڈل کیا جارہا ہے یہ قومی مفاد میں نہیں،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی

0
22
ملک میں اقلیت اکثریت خواتین اور بچے سب غیر محفوظ ہیں،حکومتی سینیٹرز

جس طرح انرجی کے شعبے کو ہینڈل کیا جارہا ہے یہ قومی مفاد میں نہیں،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی

اسلام آباد(محمداویس )چیرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کومافیاز اور وارلاڈز چلارہے ہیں ،ایل این جی کے درآمد کرنے کے حوالے سے نالائقی سے پاکستان کونقصان ہورہاہے ،جس طرح انرجی کے شعبے کو ہینڈل کیا جارہا ہے یہ قومی مفاد میں نہیں ہے ،مہنگی ایل این جی خرید کرفرٹیلائزر فیکٹریوں کومفت گیس دے رہے ہیں جبکہ صارفین کے لیے مہنگی کررہے ہیں ۔ایل این جی کی درآمدکے دورا ن ہونے والی اربوں روپوں کے نقصان کے پیرے پی اے سی نے سیٹل کردیئے،حکام نے کمیٹی کوبتایا کہ پیپرارولز کے مطابق سپاٹ کارگو نہیں خرید سکتے تھے ایل این جی خریدنے کے لیے نقدرقم دینی ہوتی ہے اور ہمارے پاس سٹورج سسٹم نہیں ہے ،پیپرارولز سے اب استثنیٰ مل گیا ہے،ایل این جی کی مد میں پی ایس او نے 130ارب روپے اور پی ایل ایل نے 110 ارب روپے ایس این جی پی ایل سے لینے ہیں ۔35ارب روپے کانقصان گھریلوصارفین کو گیس دینے سے ہوتا ہے ۔ 

بدھ کوپبلک اکاؤنٹس کمیٹی کااجلاس چیرمین رانا تنویرحسین کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔اجلاس میںسینیٹرمشاہدحسین سید، ریاض فتیانہ، راجہ ریاض ، شاہدہ اختر علی، ملک عامر ڈوگر، اقبال محمد علی،منزہ حسن،خواجہ آصف ودیگر نے شرکت کی ۔کمیٹی میں وزارت پیٹرولیم کے آڈٹ پیرے زیر غور آئے ۔اجلاس شروع ہونے کے بعد چیرمین کمیٹی رانا تنویر نے کہاکہ جس طرح انرجی کے شعبے کو ہینڈل کیا جارہاہے یا قومی مفاد میں نہیں ہے اس پر آڈٹ والوں کو بھی اعتراض ہے ۔انرجی پر وزارت نے ہمیں کچھ نہیں بتایا ہے ۔ساری نالائقی فیصلہ لینے میں ہے اس میں گڑ بڑ ہے ایل این جی کو خریدنے کا طریقہ فالٹی ہے افسران میں میں فیصلہ لینے کی قوت نہیں ہے ۔تین سال میں ان کو ایل این جی کی کیپسٹی میں اضافہ کرنا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا مزید ٹرمینل نہیں لگائے گئے ۔گیس کی قلت کے باعث فیکٹریاں بند ہوجاتی ہیں اور گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوجاتے ہیں ۔وزارت کے ماتحت اداروں میںسربراہان وافسران لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں مگر کوئی کام نہیں کرتے، دفتروں میں بیٹھے ہوتے ہیں کڑوروں روپے تنخواہ لے رہے ہیں اور کیک بیکس الگ لے رہے ہیں سابق مشیرپیٹرولیم ندیم بابر بھاگ گئے ہیں ۔کمیٹی میں ملین اور بلین ڈالر کی بات ہوتی ہے مجھے اس کی سمجھ نہیں آتی ہے اربوں کی کرپشن سے منہ ہمارا کالا ہوتا ہے کابینہ اور ہمارا منہ کالا کیا جارہا ہے ۔جس پرعامر ڈوگر نے کہا کہ چیرمین صاحب آپ نے سیاسی بات کی ہے ہمیں اس کا جواب دینے کی اجازت دیں ہم حکومت میں ہیں ہم جواب دے ہیں ۔

شیخ روحیل اصغر نے کہاکہ حکومت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہرخرابی کا ذمہ دار وہ خود ہے ندیم بابر 80کڑور کا ڈیفالٹر ہے اس کو اسی ادارے میں لگادیا تھا ۔آڈٹ حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ کرونا میں ایل پی جی کی قیمتیں کم تھیں مگر اس کے باوجود نہیں خریدی گئی جس سے نقصان ہوا۔آڈٹ پیرے اسی حوالے سے ہیں ۔ سیکرٹری پیٹرولیم ڈاکٹر ارشد محمود نے کہاکہ چیرمین کمیٹی نے جو بات کی ہے وہ ٹھیک ہے۔ ملک میں کل گیس جو فروخت ہورہی ہے وہ 4ہزار ایم ایم سی ایف ڈی ہے ۔ خواجہ آصف نے کہاکہ فرٹیلائزر کو سبسڈی پر گیس دے رہے ہیں ۔فرٹیلائزر کو گیس میں سبسڈی صارف کو نہیں مل رہی ہے فرٹیلائزر کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے ان کو تو مفت ہی گیس مل رہی ہے ۔ گیس کا مسئلہ فرنس آئل کی وجہ سے ہے ان کی مناپلی ہے ۔ایک طرف مہنگی گیس خریدی جاری ہے اور دوسری طرف فرٹیلائزر کمپنیوں کومفت دی جارہی ہے ۔ چیرمین کمیٹی نے کہاکہ جو سبسڈی فرٹیلائزر کو مل رہی ہے یہ آگے صارف کو بھی پاس ان ہونی چاہیے ۔مافیا پاکستان کو چلارہے ہیں ۔حنا ربانی کھر نے کہاکہ کسان کی سبسڈی فرٹیلائزر فیکٹریوں کو مل رہی ہے ۔جس پر سیکرٹری پیٹرولیم نے کہاکہ فرٹیلائزر کمپنی کو سبسڈی دے رہے ہیں ۔ایک ایم ایم سی ایف ڈی سے 5میگاواٹ بجلی بن سکتی ہے اگر یہ گیس ان کودیں تو سستی بجلی پیداہوسکتی ہے جب ڈیمانڈ 19ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہوجاتی ہے تو فرنس آئل والے پلانٹ بھی چلانے پڑتے ہیں ۔

سیکرٹری نے کہاکہ یہاں پر 12سو ایم ایم سی ایف ڈی گیس جو ایل این جی کی ہے اس پر بات کریں گے کہ جو بات آڈٹ کو سمجھ آگئی ہے وہ وزارت کے حکام کو کیوں سمجھ نہیں آرہی جس سے نقصان بتایا جارہاہے ۔ہر ماہ ایل این جی کے 12کارگو چاہیے ہوتے ہیں ۔5کارگو کے ریٹس فیکس ہیں ۔باقی سپاٹ پر خریدنے پڑھتے ہیں جبکہ ایل این جی کی خریداری کے لیے نقدرقم دینی ہوتی ہے ۔پی ایس او اور پی ایل ایل یہ گیس درآمد کرتے ہیں پی ایس او اگے یہ ایس ایس جی سی ایل اور ایس این جی پی ایل کو فروخت کرتی ہے اور پی ایس او کو ان سے 130ارب روپے لینے ہیں جبکہ پی ایل ایل صرف ایس این جی پی ایل کوگیس فروخت کرتی ہے اور اس نے بھی ایس این جی پی ایل سے 110ارب روپے لینے ہیں ۔دونوں کمپنیوں کے پاس پیسے ہوں گے تو سپاٹ پر ایل این جی خریدیں گے ۔ گیس کی سٹوریج موجود نہیں ہیں۔ بدین میں کچھ کنوئیں ہیں جو خالی ہیں ان میں 20دن کا سٹوریج بنایا جاسکتا ہے اس پر کام ہورہاہے ۔35ارب روپے کی گیس گھریلو صارفین میں گم ہوجاتی ہے جس کا نقصان ہوتا ہے ۔ سپاٹ کارگو پر پیپرا قانونی اب لاگو نہیں ہوتے ہیں یہ استثنی ہمیں ابھی دے دی گئی ہے پہلے یہ نہیں تھا ۔جس کی وجہ سے سپاٹ کارگو نہیں خرید سکتے تھے ۔انہوں نے کہاکہ جس طرح شازیب خان کہتے ہیں تو ان کو مارکیٹ میں آجاناچاہیے اس طرح تو وہ ارب پتی بن جائیں گے مگر اس طرح نہیں ہے جس طرح وہ بتاتے ہیں ان کو پتہ چل جائے گا۔ چیرمین کمیٹی نے کہاکہ پاکستان کومافیاز چلارہے ہیں ۔ ایل این جی کو آپ سنبھال نہیں رہے ۔فرٹیلائزر کو گیس مفت اور صارفین کو مہنگی دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف فرٹیلائزر والوں کو مفت گیس دے رہے ہیں۔ جو وہ آگے سبسڈی نہیں دے رہے اور ساری رقم ان کے جیب میں جارہی ہے ۔ خواجہ آصف نے کہاکہ ملک میں آج بھی 22خاندانوں کی اجارادی ہے چند خاندانوں میں دولت رہے گی تو اس سے ملک کا فائدہ نہیں ہوگا پاکستان میں مافیاز ہیں ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔ جج بیوروکریٹ صحافیوں نے پلاٹ لیے ہیں مگر سیاست دان نے کبھی پلاٹ نہیں لیا ہے ۔منزہ حسن نے کہاکہ جب سٹیٹ مقرض ہوگی تو عوام کا بھی یہی حال ہوگا کچھ لوگوں نے اپنے دولت بڑھانے کے لیے ملک کو مقروض کردیا ہے ۔عامرڈوگر نے کہاکہ سردیوں میں گیس کے بارے میں کیا کیا جارہاہے ایل پی جی بھی مافیا ہے اس کا حل بتائیں پیپرا رولز اور نیب کی وجہ سے یہ کچھ نہیں کرسکتے ہیں ۔خواجہ آصف نے کہاکہ امریکہ جنگ جیتنے کے لیے نہیں اپنے مصنوعات بیجنے کے لیے لڑارہے ہیں ۔کرونا کے دروان امریکہ میں ارب پتیوں کی تعدادمیں اضافہ ہواہے مگر عام آدمی بے روزگارہوگیاہے پاکستان میں وار لاڈز کی حکومت ہے ۔کمیٹی نے کرونا کے دروان ایل این جی سستی ہونے کے باوجود نہ خریدنے کے حوالے سے نقصان ہونے کے پیرے سیٹل کردیئے جس پر وزارت پیٹرولیم کے افسران نے کھڑے ہوکر کمیٹی کاشکریہ اداکیا۔

Leave a reply