واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے 37 وفاقی قیدیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے وفاقی سطح پر پھانسیوں پر عائد پابندی کے تناظر میں لیا گیا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق، صدر جو بائیڈن نے اس تبدیلی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام میری انتظامیہ کے زیرِ نگرانی وفاقی سطح پر پھانسیوں پر عائد پابندی کے اصولوں کے مطابق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "یہ قدم انصاف اور انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق اٹھایا گیا ہے اور اس کا مقصد وفاقی عدلیہ کے نظام کو مزید انسان دوست بنانا ہے۔”
اگرچہ بائیڈن کی انتظامیہ نے 37 قیدیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا ہے، لیکن دہشت گردی اور اجتماعی قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کے لئے سزائے موت کا حکم برقرار رکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے واضح کیا کہ "جو افراد بڑے پیمانے پر قتل یا دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان کے لئے سزائے موت کی سزا برقرار رکھی جائے گی۔”امریکی میڈیا کے مطابق، کچھ معروف مجرموں کی سزائے موت اس فیصلے کے باوجود برقرار رہیں گی۔ ان میں سے ایک اہم نام 2013 کے بوسٹن میراتھون بم دھماکے کے مجرم جوہر سرنیف کا ہے، جسے سزائے موت سنائی گئی تھی۔ جوہر سرنیف نے بوسٹن میراتھون کے دوران بم دھماکے کر کے 3 افراد کو قتل اور 260 سے زائد افراد کو زخمی کیا تھا۔اسی طرح، 2015 میں ساؤتھ کیرولائنا کے ایک چرچ میں حملے کے مجرم ڈائیلان روف کی سزائے موت بھی برقرار رکھی گئی ہے۔ روف نے چرچ میں داخل ہو کر 9 سیاہ فام افراد کو قتل کیا تھا۔اس کے علاوہ، پٹسبرگ میں یہودی عبادت گاہ پر حملے کے مجرم رابرٹ بوورز کی سزائے موت بھی بدستور برقرار ہے۔ بوورز نے 2018 میں پٹسبرگ کی ایک عبادت گاہ میں فائرنگ کر کے 11 افراد کو قتل کیا تھا۔
ٹھل کے صحافی نبی بخش کنرانی بخشاپور سے مبینہ اغوا، کاربرآمد
اٹلی،پی ٹی آئی سول نافرمانی کیخلاف پاکستانیوں کا احتجاج