دنیا میں ایسا کوئی شخص وہ مرد ہو خواہ عورت بوڑھا ہو یا بچہ غریب ہو یا امیر جوتوں کی خواہش سب کو ہوتی ہے اور یہ سب کی ضرورت ہے موت اور زندگی کی طرح جوتے بھی ہر اس انسان کے لیے ضروری ہوتے ہیں جس کے پاں سلامت ہوں اگر ایک پیر والا ہے وہ بھی اپنے لیئے ایک جوتا رکھتا ہے اگر خدانخواستہ کوئی دونوں پاؤں سے معذور یے تو پھر اسے جوتوں کی ضرورت اور خواہش نہیں ہوتی۔
جوتے سستے بھی اور انتہائی مہنگے بھی ہوتے ہیں کس کے نصیب میں کیسے جوتے ہوتے ہیں یہ ہر ایک کے مقدر کی بات ہوتی ہے ،جس کو جوتوں کا شوق ہو تو پھر پتہ نہیں وہ کیسے جوتے حاصل کر لیتے ہیں ہمارے یہاں عام طور پر ملٹی نیشنل کمپنی باٹا اور سروس کے اور مقامی لیول پہ پشاور کے پشاوری چپل کوئٹہ کے نوروزی اور سعادت اور ملتان کے ملتانی کھسے بہت مشہور ہیں یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اگر کسی غریب کو جوتے لینے یا خریدنے کی سکت نہ ہو تو وہ جوتے چرانے پر مجبور ہو جاتا ہے اور مسلمانوں کے معاشرے میں جوتے چرانے کی آسان ترین جگہ مساجد اور اولیائے کرام کے مزارات و درگاہیں اور شادی بیاہ اور دعوت ولیمہ جیسی تقریبات ہوتی ہیں نمازی حضرات کے جوتے جتنے مہنگے اور قیمتی ہوتے ہیں مسجد میں نماز پڑھتے وقت اس کی توجہ جوتوں کی طرف بھی ہوتی ہے کہیں چوری نہ ہو جائیں ۔
متحدہ ہندوستان میں ریاست بہار کی رانی اندرا دیوی بہت قابل اور ذہین اور با صلاحیت حکمران عورت تھی اس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ برصغیر کی پہلی عورت تھی جس نے یوگا کی تربیت حاصل کی تھی اور بعدمیں استاد کی حیثیت سے اپنے شاہی خاندان کے افراد کو بھی سکھاتی تھی لیکن اس کو جوتوں کا جنون کی حد تک شوق تھا اس دور میں اٹلی میں جوتے بنانے کا ایک ماہر سیلیٹور فریگامو کے جوتے دنیا بھر میں مشہور تھے اس کی خواہش نے بھی انگڑائی لی اور شاہی فرمان جاری کر دیا کہ اس کو میرے دربار میں لایا جائے چناچہ اس کو اٹلی سے لایا گیا اندرا دیوی نے اس سے کہا کہ مجھے ایسے جوتے چاہیئے جو آج تک دنیا بھر میں کسی عورت نے نہ پہنے ہوں فریگامو سوچ میں پڑ گیا اور اس نتیجے پرپہنچا کہ آج تک کسی عورت نے ہیرے اور جواہرات سے جڑے جوتے نہیں پہنے ہیں جس پر رانی نے خوش ہو کر اس کو اپنے لیئے ایسے 600 جوتے تیار کرنے کا حکم دیا اور وہ سارے جوتے ہیروں جواہرات سونے اور نایاب پتھروں سے بنائے گئے ایسے مہنگے اور قیمتی جوتوں کا سن کر ملکہ برطانیہ حسرت سے آہ بھر کر رہ گئی کیونکہ وہ ایسے جوتے نہیں خرید سکتی تھی ان کے ملک میں احتساب کا خوف ہے
جب جوتوں کی بات چل ہی نکلی ہے تو جدید دور کی موجودہ اکیسویں صدی میں مشہور شخصیات اور حکمرانوں پر نفرت کے اظہار کے طور پر جوتے پھینکنے کا خطرناک رواج چل نکلا ہے جس کی ابتداء عراق کے ایک صحافی المنتظری نے دنیا کے طاقتور ترین حکمران سپر پاور امریکہ کے صدر جونیئر بش پر یکے بعد دیگرے دو جوتے پھینک کر کی اور پھر یہ سلسلہ دنیا بھر میں چل نکلا ہے اور یہ جوتے پاکستان کے حکمرانوں تک بھی پہنچ گئے،جوتوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا رواج خواتین نے شروع کیا ، ہمارے ملک کے نیوز چینلز پر آئے دن ایسے مناظر دکھائے جاتے ہیں جن میں خرانٹ قسم کی بہادر اور باہمت خواتین اور لڑکیاں آوارہ اوباش اور لفنگے اور چھیڑ چھاڑ کرنے والے مرد اور لڑکوں کو جوتوں سے ٹھکائی کرتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں ، نفرت کے طور پر کسی معتوب شخص کو جوتوں کے گلے میں ہار بھی پہنائے جاتے ہیں تو کسی کے سر پر برسائے جاتے ہیں چنانچہ جوتوں کے شوق اور استعمال میں بڑے احتیاط کی ضرورت ہے خاص طور پر حکمران اور اونچے طبقہ کے لوگ آجکل جوتوں کے خوف میں مبتلاء نظر آتے ہیں کہ کہیں سے کوئی لہراتا ہوا جوتا نہ آجائے اس لیئے جوتے وہی اچھے جو پاؤں میں پہنے یا پہنائے جائیں لیکن گلے میں اور سر پر جوتے پڑنے سے اللہ پاک سب کو محفوظ رکھے تاہم اس سے بچنے کے لیے بہتر کردار کی ضرورت ہے ۔