واقعۂ کربلا صرف ایک جنگ یا سانحہ نہیں، بلکہ ایک عظیم پیغام ہے
مکہ سے کربلا کا سفر – یک محرم
تحریر:سید ریاض حسین جاذب
محرم الحرام کی آمد ہر سال صرف اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہی نہیں لاتی بلکہ یہ مہینہ دلوں میں ایک گہری اداسی، روح میں ایک عجیب اضطراب اور تاریخ میں ایک عظیم جدوجہد کی یاد کو بھی تازہ کر دیتا ہے۔ یکم محرم الحرام کا دن مسلمانوں کے لیے نہ صرف نئے سال کی شروعات کا دن ہے بلکہ یہ وہ لمحہ ہے جب اہل بیتِ اطہارؑ کی عظیم قربانیوں کے ایک نئے اور کٹھن سفر کا آغاز ہوا۔ کربلا کی طرف جانے والا راستہ اسی دن سے ایک ایسی تاریخ کی بنیاد بن گیا جو انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والی کہانی میں ڈھلنے جا رہا تھا۔

یکم محرم وہ دن تھا جب امام حسینؑ، رسول کریم ﷺ کے نواسے ے اپنے خاندان اور رفقاء کے ہمراہ یزیدی حکومت کے ظلم اور جبر کے خلاف عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ امام حسینؑ نے یہ فیصلہ کسی ذاتی مفاد، اقتدار یا سیاسی مفاہمت کے لیے نہیں کیا، بلکہ یہ فیصلہ ایک اصول، ایک سچائی اور دینِ اسلام کے حقیقی چہرے کے تحفظ کے لیے کیا گیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ ایک مسلمان اگر حق پر ہو تو وہ تنہا ہو کر بھی باطل کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے، چاہے دشمن کا لشکر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔

امام حسینؑ کے ساتھ ان کے جانثار رفقاء، وفادار اصحاب اور اہل بیتؑ کے وہ افراد شامل تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا بلکہ اپنی غیر متزلزل وفاداری، صبر، استقامت، اور قربانی سے تاریخِ انسانیت کو وہ باب عطا کیا جو رہتی دنیا تک مظلوموں کی ڈھارس اور ظالموں کے لیے ایک بے آواز احتساب بن کر گونجتا رہے گا۔ ان میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے جو پیاسے لبوں سے وفا کی شمع جلائے ہوئے تھے، نوجوان جو حسینؑ کے نام پر اپنی جوانیاں وار دینے کو تیار تھے، ضعیف اصحاب جو تھر تھراتے جسموں کے ساتھ بھی ظلم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور باوقار خواتین جنہوں نے اسیری کے عالم میں بھی حوصلے، وقار اور پیغام رسانی کا کردار ادا کیا۔

یکم محرم کو جب امام حسینؑ نے کربلا کی بے آب و گیاہ سرزمین پر قدم رکھا، تو یہ محض ایک قافلے کا پڑاؤ نہیں تھا بلکہ یہ تاریخ کی سب سے بڑی نظریاتی تحریک کا آغاز تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں حق و باطل کا فیصلہ تلوار سے نہیں بلکہ کردار سے ہونا تھا۔ کربلا صرف میدانِ جنگ نہ تھا بلکہ ایک درسگاہ بن چکا تھا جہاں ہر لمحہ، ہر قدم اور ہر سانس ایک پیغام تھا۔

واقعۂ کربلا درحقیقت صرف ایک خونریز معرکہ یا سانحہ نہیں بلکہ ایک عالمی اور آفاقی پیغام ہے۔ یہ وہ صدا ہے جو وقت کے ہر یزید کے خلاف حسینؑ کے لہجے میں گونجتی ہے۔ امام حسینؑ کی قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حق اور انصاف کے لیے زندہ رہنا اور ضرورت پڑے تو اس پر قربان ہو جانا ہی اصل کامیابی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی جان دی بلکہ اصولوں کی حفاظت کے لیے اپنے پیاروں کو قربان کیا اور تاریخ کو یہ سکھایا کہ مقصد جب عظیم ہو تو قربانی بھی عظیم ہونی چاہیے۔

کربلا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عزت صرف طاقت سے نہیں بلکہ اصولوں سے آتی ہے۔ حسینؑ نے پیاسے رہ کر سیراب دلوں کو جلا بخشی، انہوں نے تنہا ہو کر انسانیت کو اجتماع کی اہمیت سکھائی اور انہوں نے مر کر بھی اسلام کو زندہ کر دیا۔ محرم کی ہر آمد کے ساتھ کربلا کا پیغام ایک نئی شدت سے دلوں کو جھنجھوڑتا ہے، ضمیروں کو جگاتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ باطل کتنے ہی وسائل سے لیس ہو، حق کی طاقت کردار میں پوشیدہ ہوتی ہے۔

یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی بھی قیمت پر سچائی سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ جب حالات ناسازگار ہوں، جب دشمن طاقتور ہو اور جب ظاہری دنیا حق سے منہ موڑ چکی ہو، تب بھی اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنے اصولوں پر قائم رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔ امام حسینؑ کا پیغام نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک دائمی درس ہے کہ مظلوم اگر صاحبِ حق ہو تو وہ زمانے کے یزیدوں کو شکست دے سکتا ہے، وہ بھی میدانِ کربلا میں اور وہ بھی صرف کردار، صبر اور صداقت کے ہتھیاروں سے۔

امام حسینؑ کا پیغام رہتی دنیا تک مظلوموں کے لیے امید اور ظالموں کے لیے ایک کھلا چیلنج بنا رہے گا۔ محرم ہمیں صرف آنسو نہیں دیتا، بلکہ حوصلہ بھی دیتا ہے . باطل کے خلاف کھڑا ہونے کا، سچ بولنے کااور عدل و انصاف کے لیے قربانی دینے کا۔

Shares: