کیا ججزکو حاصل استثنیٰ وزیراعظم سے زیادہ مضبوط نہیں؟ عدالت
ججز کے کردار پر تو پارلیمان میں بھی بحث نہیں ہوسکتی.
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کیخلاف درخواستوں پرسماعت سپریم کورٹ میں ہوئی،وکیل نے کہا کہ عدالت نے سوال پوچھا تھا کیا ایگزیکٹو جج کیخلاف مواد اکٹھا کرسکتا ہے، ایگزیکٹوصدرکی منظوری کے بعد ہی مواد جمع کرسکتا ہے،
عدالت نے استفسار کیا کہ صدر کو اختیار ہے کسی ادارے کومواد جمع کرنے کا حکم دے سکیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ صدر مملکت کے تمام اختیارات بھی قانون کے ہی تابع ہیں ،جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ایگزیکٹواختیارات کا استعمال صدر مملکت کا کام نہیں،صدرکوجج کیخلاف شکایت وزیراعظم، کابینہ بھی بھجواسکتی ہے
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا صدروزیراعظم کی سفارش کیخلاف حکم دے سکتاہے؟ کیا وزیراعظم صدرکوسپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پرعمل سے روک سکتاہے؟ جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ ججز کی تعیناتی اوربرطرفی وفاق کا ایگزیکٹو اختیار ہے .
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ایگزیکٹوکے اختیارات صدرکیسے استعمال کرسکتا ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بغیرمعاملہ صدرکونہیں بھیجا جا سکتا، ہر قانون کی خلاف ورزی مس کنڈکٹ کے زمرےمیں نہیں آتی،جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ آرٹیکل 209کا اطلاق صرف ججزپرہی نہیں ہوتا، آڈیٹرجنرل،ارکان الیکشن کمیشن کوبھی آرٹیکل 209 کے تحت ہٹایا جاتا ہے، ایسی تشریح نہیں چاہتےکہ کسی کوعہدے سے ہٹایا ہی نہ جاسکے،
جسٹس عمرعطا نے کہا کہ آپ بھی نہیں چاہتے کوئی ریفرنس پربدنیتی کاالزام لگا کرعدالت آجائے،وکیل نے کہا کہ پکڑنا اور گرفتارکرناہی تضحیک نہیں،ججز،اہلخانہ کی جاسوسی، نجی زندگی میں مداخلت بھی تضحیک ہے، طے کرنا ہو گا ججز کے معاملے میں ایگزیکٹو کے کیااختیارات ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس اصول وضع کرنے کا اختیار نہیں،آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ وزیراعظم کو ہے، ان کے اقدامات کو نہیں،
منیر اے ملک نے کہا کہ وزیراعظم کےغیرقانونی احکامات چیلنج ہو سکتے ہیں،عدالت نے کہا کہ استثنیٰ وزیراعظم،وزراکی ذاتی زندگی، فوجداری جرائم پرنہیں ہوتا، کیا ججزکو حاصل استثنیٰ وزیراعظم سے زیادہ مضبوط نہیں؟ ججز کے کردار پر تو پارلیمان میں بھی بحث نہیں ہوسکتی.