جے یو آئی کسی کے ساتھ نہیں، ہم صرف عوام کے ساتھ ہیں،حافظ حمد اللہ کا دعویٰ
پاکستان کی سیاسی جماعت جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینئر رہنما حافظ حمد اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ ان کی جماعت کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ وہ صرف عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ بیان انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کے دوران دیا۔حافظ حمد اللہ نے 2024 کے انتخابات کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ الیکشن نہیں بلکہ "آکشن” تھا۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی نے حکومت کو سپورٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ اپوزیشن میں بیٹھے گی۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے بھی وضاحت کی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ان کا اتحاد ایشو ٹو ایشو ہے، اور اسمبلی کے اندر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔حافظ حمد اللہ نے حکومت سے ججز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت کے حوالے سے سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ بتانا چاہیے کہ ججز کی تعداد بڑھانے کی کیا ضرورت پیش آئی اور اس کے وقت کی نوعیت کو بھی دیکھنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس معاملے پر جے یو آئی کو قائل کر لے تو وہ اس کی حمایت کر سکتے ہیں۔
انہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے رہنما ملاقات کرنے بار بار آتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی قیادت کو فیصلہ کن قوت نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی اصل فیصلہ کن قوت ہیں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے مؤقف الگ الگ ہیں، جس کی وجہ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ان سے بات کی جائے یا نہیں۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما مہر بانو قریشی نے جے یو آئی کے مؤقف پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی نے سیاسی شناخت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا مؤقف اپنایا ہے، جو حقیقی اور درست بھی ہے۔ انہوں نے اپنے والد شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کے حوالے سے کہا کہ انہیں کس بنیاد پر جیل میں رکھا گیا ہے، جب کہ 9 مئی کے واقعے کے وقت وہ لاہور میں موجود ہی نہیں تھے۔ مہر بانو قریشی نے مزید کہا کہ حکومتی بینچز پر بیٹھی جماعتیں فارم 47 کی پیداوار ہیں۔حافظ حمد اللہ اور مہر بانو قریشی کے ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کافی پیچیدہ ہے، جہاں جماعتیں اپنی شناخت اور مؤقف کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے بیانات سے یہ بھی عیاں ہے کہ آئندہ سیاسی منظرنامہ مختلف نوعیت کا ہو سکتا ہے، جس میں نئی حکمت عملی اور اتحاد کے امکانات موجود ہیں۔