9 نومبر یوم سقوط جوناگڑھ، چند حقائق

0
66

ریاست جونا گڑھ برصغیر کی 562 شاہی ریاستوں میں سے ایک تھی۔ مغل دور میں نواب بہادر خان بابی ایک بااثر عہدے پہ فائز ہوئے۔ 1748ء میں نواب بہادر خان بابی نے بطور آزاد حکمران جوناگڑھ پہ حکومت شروع کی۔ اس کے بعد سے جوناگڑھ پہ انہی کے خاندان کی


حکومت رہی۔ تقسیمِ ہند سے قبل جوناگڑھ ایک فلاحی ریاست تھی جس میں ریاست کے باشندگان کی تعلیم، صحت اور خوراک ریاست مفت فراہم کرتی تھی۔ جونا گڑھ برٹش انڈیا کی دوسری امیر ترین ریاست تھی جبکہ مالی اعتبار سے یہ پانچویں بڑی ریاست تھی۔ یہاں کے لوگ معاشی طورپرخودکفیل تھے اوریہ ایک مضبوط ریاست تھی جس کا اپنا ریلوے کا نظام تھا۔ تقسیمِ ہند کے وقت انڈین ایکٹ 1947 کے تحت شاہی ریاستوں کو آزادی دی گئی تھی کہ وہ چاہیں توبھارت یاپاکستان کے ساتھ الحاق کریں اورچاہیں توآزاد رہیں۔ ریاست جوناگڑھ کا پاکستان سے الحاق بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کا خواب تھا۔ چنانچہ اُس وقت ریاست کے نواب مہابت خانجی نے جوناگڑھ کی ریاستی کونسل سے مشاورت کے بعد پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا اور 15ستمبر 1947 کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ دستخط کئے ۔ لہذاعالمی قوانین کے مطابق 15ستمبر 1947سے جونا گڑھ پاکستان کاحصہ بن گیا۔ 9 نومبر 1947 تک جوناگڑھ پاکستان کا باقاعدہ حصہ رہا۔ اس دوران جوناگڑھ کی سرکاری عمارت پر پاکستان کا پرچم لہراتا تھا۔ 9 نومبر 1947ء کو بھارتی فوج نے ریاست میں پیش قدمی کرتے ہوئے غیر قانونی قبضہ جما لیا- جوناگڑھ وہ پہلا پاکستانی علاقہ تھا جس پر بھارت نے پاکستانی حدود کراس کرتے ہوئے قبضہ کیا۔جوناگڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ ہے جو بھارتی قبضہ میں ہے۔ قائداعظم اور نواب آف جوناگڑھ کے مابین طے پانے والی الحاقی دستاویزایک انتہائی اہم قانونی دستاویز ہے۔مسئلہ جوناگڑھ تب تک اپنی قانونی حیثیت رکھتا ہے جب تک الحاقی دستاویز کی قانونی حیثیت برقرار ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جونا گڑھ کے لوگوں نے پاکستان کی ترقی میں بہت نمایاں کردار اداکیا،ریاست کے عوام کیونکہ تجارت پیشہ تھے اور معاشی طور پر مضبوط تھے انہوں نے بھارت کی دراندازی کو قبول نہیں کیا اور قیام پاکستان کے وقت بہت سے افراد ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے۔ ان میں سے بہت سے افراد اپنے تجربات اور سرمایہ سے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں مصروف عمل ہو گئے آج بھی جونا گڑھ سے تعلق رکھنے والے 2.5 ملین سے زائد افراد پاکستان میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ آج بھی پاکستان کے بڑے تجارتی گروپ دادا بھائی،آدم جی گروپ،پردیسی گروپ، داؤد گروپ یہ سب جونا گڑھ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، ایسے ہی پاکستان بننے کے ساتھ ہی بینکنگ اور صنعت کے شعبے میں بھی ریاست جوناگڑھ کے افراد نے اپنا حصہ ڈالا اور پاکستان کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ یوں تو ایک طویل فہرست ہے لیکن ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔ پاکستان میں مسئلہ جوناگڑھ کے حل کیلئے ابتدائی چند سال سیاسی و سفارتی کوششیں ہوئیں لیکن بدقسمتی سے بعد میں اسے بھلا دیا گیا۔ حتیٰ کہ کتابوں اور میڈیا سے بھی اس مسئلہ کا ذکر ناپید ہو گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جوناگڑھ کے متعلق نوجوان نسل کو شاید ہی کچھ معلوم ہے۔ ہم موجودہ حکومت کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری خواہش کے مطابق ریاست جوناگڑھ کو پاکستان کے نقشے میں شامل کیا، ہم علاقائی اور عالمی قوتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی قوانین کے مطابق ہمارا جائز حق یعنی ہماری ریاست پر بھارت کا قبضہ ختم کروایاجائےکیونکہ دستاویزی طور پر تو ریاست اب پاکستان کا حصہ ہے۔ ہر سال 9 نومبر کو ہم یوم سقوط جونا گڑھ کی یاد مناتے ہیں ہم پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ ریاست جونا گڑھ کو اس کا حق دلوانے میں اپنا بھرپور عملی کردارادا کریں۔ وزیراعظم پاکستان سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ جوناگڑھ کے سفیر بن کر عالمی سطح پر اس کا کیس لڑیں تاکہ قائداعظم کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ وزیراعظم پاکستان اور وزیر خارجہ سے درخواست ہے کہ مسئلہ جوناگڑھ پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر بات کرتے ہوئے اس مسئلہ پر بھی بات کریں۔حکومت پاکستان کو قائد اعظم کے وژن کے مطابق اس مسئلہ کو بین الاقوامی سطح پر ضرور اٹھانا چاہیے، پاکستان کا کیس مضبوط ہے اور عالمی قوانین کے مطابق ہے۔ ہم ریاست پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ اسلام آباد میں جونا گڑھ ہاؤس قائم کیا جائے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں آباد جوناگڑھ کمیونٹی کے مسائل کو حل کیا جائے۔ نیز یہ امر واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ جوناگڑھ اور مسئلہ کشمیر کی اپنی اپنی نوعیت ہے اور دونوں کو بیک وقت عالمی سطح پر اٹھایا جانا چاہئے کیونکہ قانونی اور اخلاقی طور پہ پاکستان کا موقف عالمی قوانین کےعین مطابق ہے۔

Leave a reply