سابق ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ریسکیو نے سوات واقعے کی تحقیقاتی کمیٹی کو بیان قلمبند کرا دیا ہے
سرکاری ذرائع کے مطابق سابق ڈی ای او ریسکیو نے ریکارڈ اور شواہد بھی کمیٹی کو جمع کرادیے، فوٹیجز، عملہ اور گاڑیوں کا ریکارڈ انکوائری کمیٹی کو فراہم کیا گیا،کمیٹی نے سابق ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر سے سوال کیا کہ قیمیتی جانیں کیوں نہ بچائی جاسکیں؟ اس پر سابق ریسکیو آفیسر نے جواب دیاکہ ڈوبنےوالوں کو بچانےکی ہر ممکن کوشش کی، خوازخیلہ پل کےمقام پر پانی کا بہاو77 ہزار کیوسک سےتجاوز کرگیا تھا، 9 بج کر 49 منٹ پرشہری کی کال ملی کہ ہوٹل میں بچے پھنسے ہوئے ہیں، 10 بج کر4 منٹ پر ریسکیو میڈیکل ٹیم موقع پر پہنچی، 15منٹ میں غوطہ خور اور ٹیوب کشتی سےسیاحوں کوبچانےکی کوشش شروع کی، واقعے کی جگہ پر پانی کا بہاؤ بہت تیز اور زیادہ تھا، 40 سے 45 منٹ میں جوکرسکتےتھے، ہم نےکیا، 3 سیاحوں کو ریسکیوکیا، سوات واقعے سے قبل 2 ایمرجنسی آپریشن مکمل کرکے سیاحوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا، 27 جون کو 8 مقامات پرآپریشنز کرکے107 سیاحوں کوریسکیوکیا۔
دوسری جانب سوات میں تجاوزات کے خلاف ضلعی انتظامیہ کا گرینڈ آپریشن جاری ہے، بائی پاس اور فضاگھٹ پر اب تک 26 ہوٹل او ریسٹورنٹس کےخلاف کارروائی کی جاچکی ہے، متاثرہ فیملی نے دریاک ے کنارے جس ہوٹل پر ناشتہ کیا تھا وہ ہوٹل بھِی گرادیاگیا،ضلعی انتظامیہ کے مطابق سنگوٹہ تک 49 ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں دریائے سوات میں سیلابی ریلے میں طغیانی کے باعث بہنے والے17 افراد میں سے ایک بچہ تاحال نہ مل سکا، بچے کو ڈھونڈنے کیلئے ریسکیو آپریشن چوتھے روز بھی جاری ہے .