جرم کسی جنس کی میراث نہیں تحریر:اقصٰی یونس

کچھ مہینے پہلے ایک واقعہ نظروں سے گزرا ۔ اور وہ کہانی اور وہ واقعہ دیکھ کر ہر فرد چاہے مرد ہو یا عورت ایک بار ضرور پورے قد سے ہلا ہوگا کیونکہ مرد کا یہ بھی روپ اس دنیا میں پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی ہی بیٹی کو کئی ماہ تک زیادتی کا نشانہ بناتا رہے اور اسی باپ سے بیٹی چھ ماہ کی حاملہ تھی ۔ اور پھر بھی وہ بھیڑیا نما مرد اس بات سے انکاری تھا کہ اس نے اپنی بیٹی کے ساتھ کچھ غلط کیا۔ بجائے اپنی غلطی ماننے کے وہ اپنی ہی بیٹی پہ الزامات اور تہمتوں کی بوچھار کر رہا تھا ۔ لیکن بھلا ہو ٹیکنالوجی کا کہ ڈی این اے ٹیسٹ نے سارے رازوں سے نہ صرف پردہ اٹھایا بلکہ مرد کا وہ چہرہ بھی دیکھایا جیسے دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے ۔ ہاں شاید مرد کا یہ روپ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے ۔

اور انہی آنکھوں نے ایک ایسا منظر بھی دیکھا کہ بیٹی نے اپنے کسی آشنا کے ساتھ مل کر باپ کو موت کی میٹھی نیند سلا دیا ۔ اور وہ قتل فقط اس لئے کیا گیا کہ باپ نے اپنی بیٹی کو دنیا داری ، صحیح غلط کی تمیز سکھاتے ہوئے گناہ کی دلدل میں جانے سے روکا تو بیٹی نے اپنے ہی قبیح ہاتھوں سے اپنے باپ کا گلا دبا دیا ۔ میں حیران تھی اور پریشان بھی جب عورت کا ایسا گھنوؤنا روپ دیکھا ۔ مگر شاید چشم فلک کے مقدر میں یہ بھی دیکھنا باقی تھا ۔

خواتیں کی ایک محفل میں ہر عورت زور و شور سے خود کا با وفا اور مرد کو بے وفا ثابت کرنے میں بازی لے جانا چاہتی تھی ۔ اور یہ نیک خیالات کا اظہار یوں کیا جا رہا تھا کہ مرد عورتوں کو اپنی طرح دھوکے باز سمجھتے ہیں۔ اور وفا تو انکے خمیر میں ہی شامل نہیں ۔اسی لیے انہیں لگتا ہے کہ ان کا رشتہ خطرے میں ہے اور اسی شک میں زندگی گزار دیتے ہیں کہ کہیں اس کی بیوی کو کوئی دوسرا شخص پسند نہ آ جائے اور یہ بھی کہ صرف عورت کے کردار پہ بات کی جاتی ہے مرد کو تو ہر طرح کی آزادی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔

اسی طرح ایک مردوں کی محفل جس میں زیر بحث عورت کی ذات تھی اسکا احوال بھی کچھ مختلف نہ تھا بس وہی روایتی باتیں کہ عورت فریبی ہے بری ہے اور دنیا کے سارے فتنے عورت کی ذات سے ہی جڑے ہیں ۔جس میں عورت کے لباس سے لے کر اسکے خدوخال تک کو زیر بحث لانے کے بعد نتیجہ وہی نکلتا ہے کہ سارے فتنے ، فساد اور گناہوں کی جڑ تو عورت ہی ہے ۔

عورت اور مرد معاشرے کا انتہائی اہم اور خوبصورت حصہ ہیں اور دونوں مل کر نہ صرف ایک خوبصورت گھر بلکہ ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دیتے ہیں ۔مرد کے کئی روپ ہیں اور مرد ہر روپ میں بہترین ساتھی ثابت ہوتا ہے یہی مرد باپ کی شکل میں ہے تو فرشتہ ہے بھائی کی شکل میں ہے تو محافظ ، شوہر کی شکل میں ہے تو ایک محبت کرنے والا اور ساتھ نبھانے والا ساتھی اور بیٹے کی شکل میں ہے تو محبت اور مان ہے ۔اور بھی کئی رشتے ہیں جو اس مرد سے وابستہ ہوتے ہیں کہیں پہ دوست ہے تو کہیں پہ بھتیجا بھانجا غرض ہر شکل میں مرد ایک بہترین ساتھی ہے ۔

جبکہ دوسری جانب عورت وہ ہستی ہے جو مکان کو گھر میں تبدیل کرتی ہے عورت اگر ماں ہے تو سراپا محبت ۔ جبکہ عورت بہن ہے تو بھائی کیلئے ایک مان ہے اگر بیوی ہے تو سراپہ وفا اور اگر بیٹی ہے تو سراپہ رحمت ۔ اسی طرح عورت بھی ہر روپ اور ہر مقام پہ سراپہ محبت وفا اور قربانی ہے ۔ چشم فلک نے ایسی بھی عورت دیکھی جس نے اپنے ساتھی کو اسکی تمام تر کمزوریوں اور معذوری کے باوجود اپنے شریک سفر کا دایاں بازو بنی۔

دھوکے بازی کسی جنس کی میراث نہیں ہوتی ہے۔ اخلاقی برائیوں کا ٹائیٹل کسی ایک صنف پر نہیں لگایا جاسکتا۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں مردوں کو ہمیشہ ظالم اور دھوکے باز ہی پیش کیا جاتا ہے۔جبکہ عورت پہ بے وفائی کا ٹائیٹل لگایا جاتا ہے ۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اس میں توازن کا عنصر کھو بیٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم خواتین کے حقوق کا پرچار کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ مرد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور وہ بھی اس معاشرے میں ویسے ہی پس رہے ہیں جیسے کہ خواتین۔ اور اس بات میں قطعی کوئی شک نہیں کہ عورت کے زیادہ تر مسائل عورت ہی نے کھڑے کئے ہیں ۔ جیسے جہیز ، گھریلو تشدد وغیرہ جس میں مرد سے زیادہ کرداد عورت کا ہوتا ہے ۔

اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم ایک پدر شاہی معاشرے کا حصہ ہیں،جہاں خواتین کو ویسی طاقت اور آزادی حاصل نہیں جو مردوں کو ہے۔ لیکن اس صورت حال کو کچھ دیگر پہلوؤں سے دیکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ پوری دنیا میں انیسویں صدی سے جہاں خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع ہوئی، وہیں مردوں کے حقوق کی تنظیمیں بھی انیسویں اور بیسویں صدی میں اپنی آواز بلند کرنا شروع کرتی رہی۔ مردوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی کچھ تنظیمیں صرف اس لیے وجود میں آئیں تاکہ وہ خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے مدمقابل آسکیں۔ اور فقط یہ ایک مقابلے کی دوڑ تھی اس تنظیم کا موقف یہ تھا کہ معاشرے میں خواتین سے زیادہ مرد ظلم کا شکار ہیں اور وہ اپنی زندگی کے ہر شعبے میں تعصب کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگوں میں ہلاک ہونے والے مرد ہی ہوتے ہیں اور کوئلے کی کان میں جا کر سخت ترین کام بھی مرد کرتے ہیں۔ ان پر جنسی زیادتی کے جھوٹے مقدمات بنا کر انہیں بدنام بھی کیا جاتا ہے۔

جبکہ اگر عورت کی بات کی جائے تو وہ ظلم کی چکی میں ہمیشہ پستی آئی ہے ، کبھی غیرت کے نام پہ قتل ہوئی تو کبھی قتل کے مقدمے میں ونی کی گئی ۔ کبھی اسکی عزت کو نیلام کیا گیا تو کبھی اسکو جنسی حوس کا نشانہ بنایا گیا ۔ لیکن یہ معاملات فقط پاکستان تک محدود نہیں جنسی اور ہراسانی کے واقعات کی تعداد کا موازنہ اگر یورپ سے کیا جائے تو اب بھی پاکستان میں حالات اتنے حالات اتنے سنگین نہیں ۔ جبکہ مرد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور انکے بھی مسائل ہیں ۔

ہم ایک پدر شاہی معاشرے میں رہتے ہیں ۔
‎جناب پدرسری کا مطلب ہے ایسا معاشرہ جہاں والد یا گھر کا کوئی مرد خاندان کی نگہداشت کرتا ہے لیکن جدید معاشرے کی خواتین اس کا کچھ یوں مطلب لیتی ہیں ’ایسا معاشرہ جہاں سارے نظام کی باگ ڈور مردوں کے ہاتھ میں ہو اور خواتین کو اس سے دور رکھا جاتا ہو‘۔
‎گذشتہ چند برسوں سے خواتین کی ایک بڑی تعداد مارچ میں مارچ پر نکلتی ہے۔ زیادہ تر بڑے شہروں کی خواتین اس مارچ کا حصہ بنتی ہیں اور اسی نعرے کا پرچار کرتی نظر آتی ہیں کہ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیے جائیں اور انہیں کسی بھی صورت مرد حضرات سے کم تر نہ سمجھا جائے۔
‎بطور مسلمان اور بطور پاکستانی آپ سب ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ قرآن اور پاکستان کے آئین میں خواتین اور مردوں میں تفریق نہیں۔

‎قرآن میں عورتوں اور مردوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کیا گیا ہے بلکہ ہمیشہ ہی اے ایمان والوں! کہہ کر پکارا گیا۔ اسی طرح ملک کے آئین میں بھی فرد کی بات کی گئی ہے یعنیٰ معاشرے کا ہر فرد عورت اور مرد برابر ہے۔
‎اب معاشرے کی بات چل نکلی ہے تو ذرا پاکستانی معاشرے کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں واقعی گھر کا سربراہ مرد ہوتا ہے اور اس کی کفالت میں بیوی بچوں کے علاوہ والدین ہوتے ہیں۔
‎وہ ہر دُکھ سُکھ اور خوشی وغم کے موقعے پر خرچہ کرتا ہے۔ اپنی آمدنی کا ایک حصہ خصوصی تقریبات کے لیے صرف کرتا ہے اور جب بیٹی یا بہن کی شادی کرنا ہو تو اپنی حیثیت سے بڑھ کر اور بہت مرتبہ اُدھار کا بھار اُٹھا کر جہیز پورا کرتا ہے۔ ہمیشہ وہ اپنی ذات سے زیادہ اپنے سے منسلک عورتوں پہ خرچ کرتا ہے ۔
بسا اوقات مرد کو ایک اے ٹی ایم مشین سمجھا جاتا ہے ۔
‎اب ذرا گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر حالات پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کی نشستیں مخصوص ہیں۔ ان کی عظمت و عزت اور غیرت کے پیش نظر ان کے ساتھ نہ کسی مرد کو بٹھایا جاتا ہے اور نہ ہی خواتین کی طرف سے بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
‎اگر کسی کمپنی میں شفٹس کی صورت میں نوکری کی جاتی ہے تو نائٹ شفٹ میں صرف مرد حضرات سے ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ اگر مزدوری کی بات جائے تو یہ کام بھی صرف مردوں کے ذمے ہے۔
‎وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی آج تک صرف مرد فوجی ہی جان سے گئے۔ ایک بھی نشان حیدر کسی خاتون کو نہیں ملا، اللہ کرے وہ دن بھی آئے کہ ایک نشان فاطمہ کا اعلان کیا جائے اور وطن کی بیٹی کو دیا جائے۔
اور اگر بات جنسی حراسانی کی آئے تو عورت عورت کارڈ کے نام پہ اگر ہراسمنٹ کا ڈرامہ رچاتی ہے اور پورا معاشرہ بغیر کسی تحقیق اورتفتیش کے اس عورت کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے اور صرف یہی نہیں کبھی کبھار صرف ایڈونچر کے نام پہ لڑکیاں کسی بھی راہ چلتے شخص کی تصویر بنا کر اسے سوشل میڈیا پہ ڈال کر تماشہ دیکھتی ہیں ۔

بہرحال جب کسی جرم یا گناہ کی بات کی جائے تو ہم شدت پسندی کا تاثر دیتے ہوئے سارے قصور مرد کے زمے لگا کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں جبکہ کسی بھی جرم کا تعلق جنس سے نہیں ہوتا ۔ معاشرے میں بری عورتیں بھی موجود ہیں اور مرد بھی لیکن اسی معاشرے میں رہنے والے مرد اور عورت کے کرداد نہایت خوبصورت ہیں ۔ تو کسی بھی ایک برے مرد کی وجہ سے #Allmenaretrash کا ٹرینڈ چلانے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ معاشرہ مختلف طرز اور مزاج کے لوگوں سے بنتا ہے جس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور یہی ایک معاشرے کی خوبصورتی بھی ہے کہ جہاں اگر ایک مرد ہراس کرتا ہے تو 1 لاکھ مرد آپکی آواز بن کر انصاف کے طلبگار بھی ہوتے ہیں ۔ جب اس آرٹیکل کو لکھتے ہوئے میری میں نے مختلف مردوں کی آرا جانی تو یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور دکھ بھی کہ مرد کو نہ تو اپنے حقوق کی زیادہ فکر ہے اور نہ ہی انکی جستجو ۔ بہت سے مردوں نے بات کو بس یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ ہمیں حقوق نہیں چاہیے بس یہ معاشرہ ہماری محنت اور لگن کو تسلیم کرکے ہمیں عزت دے یہی ہمارے لئے کافی ہے۔ تو عزت اور احترام مرد اور عورت دونوں کی ضرورت بھی ہے اور حق بھی ۔ اس معاشرے کا ایک باشعور فرد ہونے کی حیثیت سے آج یہ عہد کریں کہ ہم ایک متوازن معاشرے کی بنیاد رکھتے ہوئے ہمیشہ جرم اور مجرم کو الزام دیں گے نہ کہ کسی بھی جنس کو ۔<Writer Aqsa Younas


 Aqsa Younas

Aqsa Younas is a Freelance Journalist Content Writer, Blogger/Columnist and Social Media Activist. He is associated with various leading digital media sites in Pakistan and writes columns on political, international as well as social issues. To find out more about her work on her Twitter account

  

 


https://twitter.com/AqsaRana890

Comments are closed.