سپریم کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چھٹیاں مانگ لیں
جسٹس ملک شہزاد احمد نے چیف جسٹس آف پاکستان چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو درخواست دی ہے جس میں انہوں نے چھٹیاں مانگی ہیں،چار جولائی کو جسٹس ملک شہزاد احمد نے چیف جسٹس کو خط لکھا جس میں کہا کہ
میں فرض کے گہرے احساس اور بھاری دل کے ساتھ آپ کو خط لکھ رہا ہوں،یہ الزامات سامنے آئے ہیں کہ میں نے اپنی بیٹی کے کیس سے متعلق قانونی عمل کو غیر ضروری طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ الزامات چاہے ان کی سچائی سے قطع نظر، ہماری معزز عدلیہ کی غیر جانبداری اور دیانتداری پر پرچھائی ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس طرح، میں اسے اخلاقی طور پر سمجھتا ہوں۔میں اس وقت تک مقدمات کی سماعت نہیں کر سکتا جب تک اس طرح کے دعوے موجود ہیں، میں نے غیر متزلزل طور پر انصاف، مساوات اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو برقرار رکھا ہے۔ یہ میرا فرض رہا ہے کہ میں کسی بھی قسم کے بیرونی اثرات یا ذاتی تحفظات سے آزاد ہو کر مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کروں۔ ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں درخواست کرتا ہوں کہ مجھے میری عدالتی ذمہ داریوں سے عارضی ریلیف دیں اور میری بیٹی سے متعلق قانونی کارروائی کے اختتام تک مجھے کسی بھی بنچ پر تفویض کرنے سے گریز کریں۔
جسٹس ملک شہزاد احمد نے خط میں انکی بیٹی کی گاڑی حادثے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ حادثے کے نتیجے میں نوجوان کی بے وقت موت ہوئی ، میں اپنے آپ کو اپنے عدالتی فرائض سے دستبرداری کی عاجزانہ درخواست کرتا ہوں۔یہ میرا پختہ یقین ہے کہ یہ اقدام ہمارے عدالتی ادارے کے تقدس اور ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ غیر جانبداری کا تصور اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ اس کی حقیقت، اور میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہوں کہ دونوں میں سے کوئی بھی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔
بیٹی کو مشورہ دیتا ہوں دیانت کے ساتھ قانونی عمل کا مقابلہ کرے،خود کو قانون کے حوالے کرے، جسٹس ملک شہزاد
جسٹس ملک شہزاد احمد نے اپنے خط میں مزیدکہاکہ میں اس موقع کو اپنی بیٹی کو مشورہ دینے کے لیے کہتا ہوں کہ وہ ہمت اور دیانت کے ساتھ قانونی عمل کا مقابلہ کرے۔ یہ ضروری ہے کہ وہ عدالتی حکام کے ساتھ مکمل تعاون کرے اور خود کو قانون کے حوالے کرے۔میں اللہ رب العزت، سپریم جوڈیشل کونسل اور آپ کے معزز فیصلے پر اپنا غیر متزلزل بھروسہ رکھتا ہوں۔ میں انصاف کے سوا کچھ نہیں چاہتا .
اگر کارروائی نہیں ہو رہی تو ایک شخص داد رسی کیلئے کیا کرے؟چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
عمران خان کیخلاف درخواست دینے پر جی ٹی وی نے رپورٹر کو معطل کردیا
سوال کرنا جرم بن گیا، صحافی محسن بلال کو نوکری سے "فارغ” کروا دیا گیا
صوبائی کابینہ نے بانی پی ٹی آئی کے خلاف شواہد کے تحت کارروائی کی اجازت دی
پاکستان سٹیل ملز کو نجکاری کے لسٹ سے نکال لیا گیا، رانا تنویر
امید ہے پی آئی اے کی نجکاری سے کوئی بھی بے روزگار نہیں ہوگا،علیم خان
پی آئی اےکی نجکاری کیلئے 6کمپنیوں نے پری کوالیفائی کرلیا
پی آئی اے کا خسارہ 830 ارب روپے ہے، نجکاری ہی واحد راستہ ہے، علیم خان
واضح رہے کہ مقتول نوجوان کے والد رفاقت تنولی کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ ہمیں انصاف دیں،قانون سب کے لیے برابر ہے،اگر میں برابر کا حق رکھتا ہوں تو میرے بچے کی قاتل کو گرفتار ہونا چاہیے تھا
میرے بچے کی قاتل آزاد گھوم رہی ہے،جسٹس شہزاد نے دو سال اپنے بیٹی کو سزا سے بچایا،میرے بیٹے اور اس کے دوست جو یتیم بھی تھا کو سابق چیف جسٹس ملک شہزاد کی بیٹی نے سرکاری گاڑی سے کچل کر مار دیا تھا اور جج صاحب کو سپریم کورٹ میں ترقی دے دی گئی
اسلام آباد ہائیکورٹ میں رفاقت تنولی کی گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی تو آئی جی اسلام آباد عدالت پیش ہوئے،اور کہا پولیس تفتیش میں پہلے کچھ نہیں ہوا، ہماری ڈیڑھ ماہ کی تفتیش میں پیشرفت ہوئی ہے،پہلے تو کوئی گھوسٹ ڈرائیور بتایا گیا تھا، اب ہمیں نئی فوٹیجز ملیں، پولیس کی تفتیش میں معلوم ہوا کہ ایک خاتون ڈرائیور گاڑی چلا رہی تھی، لینڈ کروزر گاڑی نے ٹکر ماری، قائداعظم تھرمل پراجیکٹ کی گاڑی تھی،ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے یہ گاڑی لاہور ہائیکورٹ میں گئی تھی،گاڑی کا جب ایکسیڈنٹ ہوا تو یہ گاڑی جسٹس شہزاد احمد کے استعمال میں تھی، گاڑی جسٹس شہزاد احمد کی فیملی کے استعمال میں تھی، گاڑی سپرداری پر لی گئی تھی ہم نے سپرداری منسوخی کی درخواست دی ہے،گاڑی کا غلط استعمال ہو رہا ہے ہم سپرداری منسوخ کروا رہے ہیں،پولیس اب تفتیش میں بہت قریب پہنچ چکی ہے،
واضح رہے کہ 2022 میں مبینہ طور پر لاہور ہائی کورٹ کے جج کی بیٹی کی اسپورٹس گاڑی کی ٹکر سے ایکسپریس وے پر سوہان پل کے قریب شکیل تنولی اور اس کا دوست علی حسنین جاں بحق ہوگئے تھے، واقعہ آدھی رات کو تیزی رفتاری کے باعث پیش آیا جس کے بعد سے کیس کی تفتیش تعطل کا شکار تھی،شکیل کے والد رفاقت تنولی نے کارروائی کیلئے درخواست دی تو دوران تفتیش معلوم ہوا کہ گاڑی لاہور ہائیکورٹ کے جج کے زیر استعمال تھی