کبالہ لیا ہے؟ کبالہ دراصل بابل کی تہذیب کاعلم ہے جو مخصوص اعداد شمار اور علامات کے ذریعے کیا جاتا تھا جسےعام طور پر کالا جادو یا Black magicبھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ دنیا باہرسے تو بہت رنگین، حسین اور خوبصورت نظر آتی ہیں لیکن اندر سے بہت ہی گھناونی ہوتی ہے۔ اس میں بہت سے راز چھپے ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو اس دنیا کا حصہ ہوتے ہیں وہ یہ راز چھپانے کے لئے ہر حد تک چلے جاتے ہیں اس کے لئے چاہے ان کو کسی ایک یا پھر بہت سے انسانوں کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔ ان طاقتور لوگوں کے چمکتے دمکتے چہروں کے پیچھے بدنما، درندے اور دہشت ناک کردار موجود ہوتے ہیں جو کہ شیطانی پیروکار ہیں اور مٹھی بھر ہونے کے باوجود دنیا کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ دراصل یہ کبالہ نامی جادو شیطانیت اور سفلیات سے متعلق ہے جس میں مختلف نشہ آور چیزوں، جادوئی عملیات اورHypnotismکے ذریعے دماغ اور اس کی سوچوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبالہ جادو کو جادوئی دنیا کا سب سے خطرناک جادو کہا جاتا ہے اس کے ذریعےAluminatiجو کہ دنیا کا ایک فیصد ہیں شیطان سے براہ راست ہمکلام ہوتے ہیں اور شیطان انہیں دنیا کو گمراہ کرنے اور اس پر حکمرانی کرنے کے نت نئے حربے سمجھاتا ہے جس کو اپنا کر یہ لوگ دولت شہرت اور حکمرانی کے خواب کو پہلے ہی پورا کر چکے ہیں۔
کبالہ صرف ایک خطرناک جادو ہی نہیں ہے بلکہ یہ جادو کی قدیم ترین شکل میں سے ایک ہے۔ اور اس کے تانے بانے بنی اسرائیل تک سے ملتے ہیں جو شیطانی طاقتوں اور عملیات پر یقین رکھنے اور ان پر عمل کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا اور آپ ہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے جو موجودہ فلسطین میں آباد تھی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اور اللہ کے پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام جن کا قصہ یقینا ہر مسلمان جانتا ہے کہ کیسے حسد کی بناء پر ان کے سوتیلے بھائیوں نے انہیں کنویں میں ڈال دیا تھا لیکن اللہ پاک نے آپ کو مصر کی حکمرانی عطا فرمائی، آپ نے اپنے تمام رشتہ داروں یعنی بنی اسرائیل کو فلسطین سے مصر بلوا لیا اور یہ لوگ یہاں آکے آباد ہونے لگے۔
مصر میں ان دنوں جادو میں عروج کمال پر تھا یہاں لوگ کبالہ نامی جادو اور سفلیاتی علم کے ذریعے ہر ناممکن اور ناقابل یقین کام کو سرانجام دیا کرتے تھے مثال کے طور پر سامری نامی جادوگر جس کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں ان کے مقابلے کے لیئے فرعون کے کہنے پہ بلوائے گئے تھے وہ اسی کبالہ جادو کا سہارا لیا کرتے تھے۔اس دور کے مصری بادشاہوں کو فرعون کا لقب دیا جاتا تھا اس وقت کے جادوگر فرعون کو کبالہ نامی کالے جادو کے ذریعے سے شیطان سے رابطہ کر کے دنیا پر حکمرانی کرنے کے نت نئے حربے سکھاتے اور ایسی ایسی ایجادات کرواتے جن کو ابھی تک سائنس سمیت انسانی عقل حیرت سے تک رہی ہے انہی ایجادات میں ایک احرام مصر بھی شامل ہیں، نمرود کے دور کی عجیب ایجادات بھی انہیں میں سے ایک ہیں۔ لیکن ایک وقت آیا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ وہ اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف ہجرت کر جائیں۔ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو سمندر کے راستے نجات دلوا کر مصر سے نکل گئے جہاں فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا اور موسٰی علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر دوبارہ سے فلسطین میں آباد ہو گئے۔لیکن اس دوران بنی اسرائیل قوم فرعونوں میں رہتے ہوئے غرور و تکبر، ماہر جادوگروں کا علم اور دنیا پر حکمرانی کے حربے سیکھ چکی تھی یعنی ان میں فرعونوں جیسی تمام درندگی والی صفات پیدا ہو چکی تھیں۔ فلسطین آکر بنی اسرائیل رفتہ رفتہ سرکش اور نافرمان بن گئی اور مصری جادوگروں سے سیکھے گئے کبالہ عملیات اور جادو کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرنے لگیں۔
بنی اسرائیل نے جادو میں مصری جادوگروں سے بھی زیادہ مہارت حاصل کر لی اور اسے اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو نقصان پہنچانے کے لیئے استعمال کرنے لگے یہاں تک کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا دور آیا۔ اللہ نے آپ علیہ السلام کو عظیم الشان سلطنت کے علاوہ جنات پر حکمرانی بھی عطا فرمائی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کے یہودیوں نے لوگوں کو ورغلانہ اور بہکانہ شروع کر دیا اور انہیں بتایا کہ نعوذباللہ سلیمان علیہ السلام کے پاس کبالہ کی ہی حکمت موجود تھی جس کے ذریعے آپ جنات کو کنٹرول کرتے تھے لہذا لوگوں نے بنی اسرائیل کے ان یہودیوں کی باتوں میں آکر کبالہ جادو کو روحانیت کے طور پر سیکھنا شروع کر دیا یہاں تک کہ جادو کی کتابوں کو مقدس کتابوں کا درجہ دے کر ہیکل سلیمانی میں رکھ دیا گیا ۔مسلسل اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے اس قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور ہیکل سلیمانی پر دو مرتبہ حملہ ہوا۔ پہلا حملہ بخت نصر اور دوسرا حملہ ٹائٹس نامی بادشاہ نے کیا اور ہیکل سلیمانی کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا اور یہاں موجود بنی اسرائیل کو قتل کیا جانے لگا تقریبا ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا بچے کچے یہودی مجبورا ہجرت کر کے پورے کرہ ارض پر پھیل گئے۔ ہیکل سلیمانی پہ حملے کے دوران جادو کی سب کتابیں ہیکل سلیمانی کے ملبے تلے ہی دب کر رہ گئی جب کہ حملہ آوروں کو خبر تک نہ تھی کہ کبالہ نامی جادو کیا چیز ہے۔
لیکن پھرگیارہ سو اٹھائیس عیسوی میں ان بچے کچے یہودیوں نے مل کر ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نامknight templars رکھا گیا۔ اس تنظیم کا مقصد بظاہر عیسائی مسافروں کو تحفظ فراہم کرنا تھا یعنی بظاہر یہ ایک سیکورٹی کمپنی بنائی گئی تھی مگر درحقیقت ان کا مقصد ہیکل سلیمانی کے ملبے تلے موجود جادوئی کتابوں کو تلاش کرنا تھا جن کے یہ لوگ کبھی طالب علم رہے تھے اور یہ نہایت شاطرانہ انداز سے اس میں کامیاب بھی ہوگئے۔ کیونکہ 1860عیسوی میں برطانیہ کے دو انجنیرز نے حرم شریف کے نیچے کھدائی کی تاکہ کچھ سروے کر سکے تو وہاں انہیں سرنگوں کا ایک جال نظر آیا جو انknight templarsنے کھودیں تھیں تاکہ ہیکل کے کھنڈرات سے وہ نایاب جادوئی کتابیں ڈھونڈ سکیں۔ وہ یہ نایاب اور جادوئی اثرات والی کتابیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے جن میں کالے جادو اور پر اسرار رسومات کا تمام علم تھا۔ ان سب کتابوں کو حاصل کر کے ان کی غیر معمولی طاقتوں کا فائدہ اٹھا کر دنیا پہ حکمرانی کرنا انknight templars کا مقصد تھا۔ یہ لوگ عیسائیوں کے ساتھ مل کر صلیبی جنگوں میں بھی شامل ہوتے رہے اور خود کو انہی کا حصہ یعنی عیسائی ظاہر کر کے دنیا پہ حکمرانی کے خواب دیکھتے رہے مگر سلطان صلاح الدّین ایوبی جیسے مسلم حکمران کے ہوتے ہوئے ان کے یہ ناپاک عزائم کامیاب نہ ہو سکے۔ چنانچہ جب عیسائیوں کو ان knight templars کے یہودی ہونے کا پتہ چلا تو انہیں قتل کرنا شروع کر دیا گیا جس کے بعد مجبور ہو کر یہknight templars سکاٹ لینڈ ہجرت کر گئے اور پھر آہستہ آہستہ وہاں سے اپنا اثر و رسوخ پورے برطانیہ تک پھیلا دیا۔ یہاں سکاٹ لینڈ میں انknight templars کے یہودیوں نے لوگوں کو طاقت اور دولت کے سہانے خواب دکھانے شروع کر دیئے کیونکہ وہ لوگوں پر حکمرانی کرنے اور لوگوں کے نفسیات سے کھیلنے کے تمام تر حربے جان چکے تھے یوں آہستہ آہستہ لوگ دولت اور ان کی سوچ کا شکار ہو کر ان میں شامل ہوتے گئے کیونکہ انسان فطری طور پر دولت اور طاقت ہی چاہتا ہے اور یوں یہ تنظیم تیزی سے پھیلنے لگی یہاں تک کہ اسے 1128 میں مذہبی تنظیم تسلیم کر لیا گیا جس کے نتیجے میں اسknight templarsنامی تنظیم کو تمام یورپی قوانین سے استثنی حاصل ہو گیا اور یہی چیز ان کے طاقت میں اضافے کا باعث بنی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت جلد ہی یہ لوگ دنیا کے تمام وسائل پر قابض ہونا شروع ہو گئے یہاں تک کہ جائیدادیں، قلعوں، جاگیروں اور دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ کرنے لگے۔
یہ تنظیم دنیا بھر کے تربیت یافتہ اور تجربہ کار لوگوں پر مشتمل ہو گئی اس تنظیم کا سربراہ Grand masterکہلاتا ہے اور ان کے نائب ماسٹر کہلاتے ہیں۔ گرانڈ ماسٹر کا حکم ان کے لیئے خدا کا درجہ رکھتا ہے۔ اس زمانے میں لوگ بیرون ممالک سفر کرنے سے گھبراتے تھے کیونکہ راستے میں ڈاکووں کا خدشہ رہتا تھا انknight templarsنے تھوڑی سی فِیس کے بدلے لوگوں کی نقدی اور رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا شروع کر دیا اور سود لینا شروع کر دیا اسی سسٹم کے ذریعے آگے چل کر بینک کا نظام متعارف کروایا گیا۔ بعد میں یہی یہودیknight templarsیورپ میں پہلے سے موجود ایک تنظیم میسن گِلز میں شامل ہوگئے اور یہاں کبالہ جادو کے رسومات اور علامات متعارف کروانا شروع کر دیئے۔ کچھ عرصہ بعد میں انknight templarsیہودیوں نےMeson gillsکے ہی اراکین میں سے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر اپنا نام بدل کرFree meson رکھ لیا اور یوںFree meson نامی تنظیم وجود میں آئی جس کا مقصد پوری دنیا میں آذاد خیالی اور دین سے بیزارگی کو فروغ دینا تھا انسان کے اندر جنس پرستی اور مادی خیالات کو پروان چڑھانا تھا۔چنانچہ اسی چیز کو آگے بڑھاتے ہوئے اس تنظیم نے یورپ میں جنگوں کو بڑھایا اور سودی کاروبار یعنی بینکنگ اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف وغیرہ بنا کر دنیا کی معیشت کنٹرول کرنے کا طریقہ متعارف کروایا۔ کیونکہ پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کا واحد طریقہ اس کی معیشت کو کنٹرول کرنا ہے۔ ان تنظیموں نے ایک تیر سے دو شکار کر کے مغرب میں جنگ کروا کر مذاہب خاص طور پر مسلمانوں پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر مذہبی بیزارگی کو فروغ دیا اور دوسری طرف ان دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیئے اپنے ہتھیار بھیج کر اربوں پتی بن گئے۔سترہ سو چھہتر میں اسFree meson نے مل کر ایک نئی تنظیم
Aluminati قائم کی،Aluminati کے نظریات اور مقاصدFree meson کے جیسے ہی تھے۔ لفظAluminati کا مطلب علم کی روشنی سے معمور ہے۔ سبAluminati خود کو دنیا کے علم میں خود کو سب سے افضل سمجھتے ہیں۔ ان کے سبplans خفیہ رہتے ہیں کیونکہ یہ مانتے ہیں کہ جو علم ان کے پاس ہے وہ عام انسانوں کے پاس نہیں ہونا چاہیئے اسی لیئے ان کا دین ان کا ایمان ان کا جینا مرنا سب ہیAluminati ہے۔بائیبل میں ابلیس کا نام لوسیفر بتایا گیا ہے جس کا مطلب ہے روشنی کا علمبردار۔ دراصل شیطان کو لوسیفر تب کی بناء پہ کہا گیا ہے جب وہ اللہ کا فرمانبردار ہوا کرتا تھا لیکن یہ تنظیمیں آج بھی شیطان کو اچھا مانتی ہیں اس لیئے وہ شیطان کو لوسیفر ہی کہتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ لوسیفر ہر چیز کا منبہ ہے خاص طور پہ ساری روشنی اور سارے علوم کا۔ Albert pikeجوکہFree mesons کے فاونڈرز میں سے ایک تھا وہ ایک 33 ڈگری Free mesonتھا جیسے ہمارے ہاں درجہ بدرجہ اولیاء اللہ اور تقوی کے لحاظ سے بڑی بڑی ہستیاں ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ان کے ہاں بھی بتدریج ابلیس کے پجاری ہوتے ہیں جس میں سب سے بڑا درجہ 33 ڈگری کا ہے۔Albert pike کی کتابMorlis and Dogmaآج بھی
Free mesonکے سٹوڈنٹس کو رہنمائی کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب کے کچھ کلمات آپ سے شیئر کرتا چلوں جہاںAlbert Pike لکھتا ہے۔کوئی شک نہیں یہ Lusipher ہی ہے جس کے پاس تمام انوار ہیں تمام روشنیاں ہیں۔ اسی لیئے یہ تمام لوگ کوCurrent bulletسے تشبیہ دیتے ہیں اور اکثر جسم کے مختلف اعضاءپر کرنٹ کے نشان نماTattosبنوا کر پھرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے دنیا کی مکمل آبادی میں سے صرف ایک فیصد Aluminati ہے جو کہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں اور یہ تیرہ Blood lines یعنی خاندان ہیں جو نسل درنسل شیطان کی پوجا کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ لوگ کسی کو بھی اپنی خفیہ تنظیم میں شامل نہیں کرتے ہاں مہرہ بنا کے اپنی انگلیوں پہ ضرور نچاتے ہیں یعنی جو لوگ مشہور ہونا چاہتے ہیں یا پیسہ کمانا چاہتے ہیں وہ شیطان سے سودہ کر کے اسے اپنی روح بیچ دیتے ہیں اور ہمیشہAluminati کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں پھر وہ جیسا کرنے کو بولتے ہیں انہیں ویسا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی ممبرAluminati
کے کسی قانون اور رول کی خلاف ورزی کرے تو اسے عبرتناک طریقے سے مار دیا جاتا ہے۔Aluminatiکی تیرہ نسلوں میں ایک خاندانDavid Philipکا ہے جبکہ ایک خاندانRothus Childکا ہے یہ دونوں خاندان پوری دنیا کےFinancial systemاورامریکہ کےFederal Reserves bankکے مالک ہیں ، یہ لوگ80سے 90فیصد کنٹرول دنیا پہ حاصل کرچکے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر اچھے اچھے کام کرتے ہیں انسان کی آسائش اور آسانی کے لیئے طرح طرح کے فلاحی کام کر کے لوگوں کی ہمدردی اور ان کا بھروسہ جیتتے ہیں لیکن پس پردہ ان کے مقاصد شیطانیت کوPromoteکرنا ہوتا ہے۔ ان کا طریقہ کار یہی ہے کہ اپنی فیلڈ کی مشہور شخصیات کو اپنے دائرے میں ایک حد تک شامل کرتے ہیں یا پھر اپنے ہی لوگوں کو عوام کے درمیان مشہور کیا جاتا ہے اور وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ چاہے وہ سیاست کا میدان ہو یا فلموں کی دنیا وغیرہ ہو یہ اپنے اداکاری کے جوہر دکھا دکھا کر لوگوں کےFavouriteہیرو اور سیاست دان بن جاتے ہیں لوگ انہیں اپنا مسیحہ اپنا آئیڈیل سمجھ کر ان کے چال چلن کو فالو کرنے لگ جاتے ہیں انہیں سپورٹ کرنے لگتے ہیں اور جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ شکار جال میں پھنس چکا ہے تب بہت ہی غیر محسوس انداز میں ان کیMind programming کرکے شیطانیت کو پروموٹ کرنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک پرانا طریقہ تھا اور اب صورتحال یہ ہے کہ یہ نوجوان نسل کو ٹارگٹ کرنے کے لئے ان کو پارٹیز میں بلواتے ہیں نشہ کی لت لگاتے ہیں اور ان پر فل کنٹرول حاصل کرکے ان سے اپنے مقاصد پورے کرواتے ہیں۔ جو نوجوان ان کو اپنے لئے خطرہ محسوس ہوتے ہیں ان کو مار دیا جاتا ہے ساتھ ہی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس گروہ کے سینئر لوگ مزید طاقت حاصل کرنے اور شیطان جس کی یہ پوجا کرتے ہیں اس کو خوش کرنے کے جنون میں اپنے ہی جونئیر پیروکاروں کی بھی بلی چڑھاتے ہیں۔ یہ کس طرح کی عبادات اور عملیات کرتے ہیں اس کے بارے میں آئندہ آنے والے کالم میں بات کی جائے گی۔