کابل فتح، اس وقت افغانستان میں کیا چل رہا ہے؟ امریکہ اور بھارت کے لئے قیامت کا منظر. طالبان کا تاریخی اعلان
سیئنیر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، بلکہ ہوچکی ہے، کل رات سے اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ طالبان کابل کے اندر آچکے ہیں، لیکن انہوں نے اعلان کیا ہے کہ کابل پر حملہ نہیں کیا جائے گا، کابل کے شہری باہر نکل آئے ہیں، وہ انکا استقبال کررہے ہیں، جتنے بھی مغرابی سفارتخانے ہیں انکی دوڑیں لگ چکی ہیں، ائیرپورٹ پر جانے کے تمام راستے اس وقت ٹریفک سے جام ہوگئے ہیں، ائیرپورٹ پر کئی جہاز کھڑے ہیں، جن میں سے دو پی آئی اے کے جہاز ہیں، جو مختلف سفارتکاروں کو لے کر کھڑے ہیں، ان کو ابھی اڑان بھرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، امریکہ کے چار سی 130 اور دو ہیلی کاپٹر رن وے پر ہیں.
مبشر لقمان نے مزید کہا ہے کہ بگرام کا ہوائی اڈہ طالبان کے قبضہ میں ہے، بابیان کا ہوائی اڈہ اس وقت طالبان کے قبضہ میں ہے، اس کے گورنر ہاؤس پر طالبان نے اپنا جھنڈہ لہرا دیا ہے، انہوں نے جنرل ایمنسٹی کا اعلان کیا ہے، کس کو مارا نہیں جائے گا، کابل کی سب سے بڑی جیل کو توڑ کر اپنے قیدیوں کو رہا کروا لیا ہے.
ارشد یوسفزئی نے کہا ہے کہ طالبان کابل شہر کے اندر داخل ہوچکے ہیں، مذاکرات جاری ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ملا برادرز اخند قطر سے روانہ ہوچکے ہیں، جس طرح پہلے سے کہا جارہا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جائے گی، طالبان پرامن طریقے سے کابل شہر میں داخل ہونگے، یہ قیاس آرائی آج صبح سے شروع ہوئیں تھیں، اس سے پیچھے طالبان کی جو محنت شامل ہے، وہ کئی مہینوں پر مشتمل ہے، انکے دوعت اور جلب کے جو کمیشن ہے، انہوں نے کئی مہینوں سے حکومتی عہدوں پر قائم افراد پر محنت کی تھی، جن کو دعوت دیتے تھے، ان کے ساتھ مسلسل مذاکرات جاری تھے، طالبان نے کہا ہے کہ حکومتی ادارے سرنڈر کرچکے ہیں، بہت جلد ان کو اپنے قبضے میں کرلیا جائے گا، سرکاری دفاتر خالی کیے جاچکے ہیں، بیس سال کی محنت کے بعد وہ کیوں کسی انٹرن کو قبول کریں گے، اگر کوئی آتا بھی ہے تو وہ کس پر اپنا حکم چلائے گا، فوج لڑنے کیلئے تیار نہیں ہے، افغانستان اس وقت طالبان کے قبضہ میں ہے، حکومتی اہلکار نالاں ہوچکے ہیں، وہ اب کام نہیں کرنا چاہتے ہیں.
ارشد یوسفزئی نے مزید کہا ہے کہ القاعدہ، ٹی ٹی پی اور داعش کے جو کنڑ اور نورستان میں بیسسز ہیں، ان پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ہے، طالبان نے بارہا کہا ہے کہ ہم اپنے ملک کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، اب جب وہ اقتدار میں آچکے ہیں، اب انکو چاہیے کہ اس وعدے کو وفا کریں، اپنی رٹ کو قائم کرنے کیلئے کسی اور کو وہاں مداخلت کی اجازت نہ دیں، وہ لوگ بھاگ کر بارڈرکراس کرنے کی کوشش کریں گے اور پاکستان آنا چاہیں گے، اب ان کے پاس وہ سپورٹ نہیں رہی جو پہلے حاصل تھی، اشرف غنی ابھی تک قابل میں ہی ہے، ان کو مارنے کا کسی کا اردہ نہیں ہے، اگر وہ سرنڈر کرتے ہیں تو طالبان انہیں گرفتار کریں گے، جیسے انہوں نے کمانڈر اسماعیل خان اور دوسرے علاقے کے گرنرز کے ساتھ سلوک کیا اچھے طریقے سے پیش آئیں گے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اشرف غنی طالبان کے سامنے سرنڈر کرے گا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ افغانستان سے نکل جائیں گے.
ارشد یوسفزئی کا مزید کنہا تھا کہ ایک وقت تھا کہ جنرل عبدالرشید دوستم واحد ازبک کمانڈر تھے ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا، آہستہ آہستہ وہ حکومت میں چلتے چلے گئے سہل زندگی کے ساتھ انہیں پیسوں کا شوق پڑگیا تھا، پھر اورعوام ابھرنا شروع ہوگئی تھی، کیساری ان مں سے ایک کمانڈر تھے، امید یہ کی جاتی تھی کہ اگر دوستم نہ لڑیں گے تو کیساری لڑیں گے، جس طرح دوستم اور عطا نور وغیرہ لڑائی سے بھاگ گئے، کیساری نے بھی بھاگنے کی کوشش کی تھی، اب مسئلپ یہ ہے کہ دوستم اور عطا نور پہلے جہاز سے چلے گئے تھے، ان کیلئے ازبکستان جانا آسان تھا، افغانستان اور ازبکستان کے بارڈر پر جو پل لگتا ہے ازبکستان کی فورسسز نے بیاسی گاڑیاں روک لیں تھیں، موقع پر پہنچ کر طالبان نے ان سب کو گرفتار کرلیا تھا، وہ سب سرنڈر ہوگئے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ کیساری نے بہت بڑی غلطی کی کہ وہ روڈ سے جانا چاہ رہا تھا، ان کو چاہیے تھا کہ پہلے جہاز میں بیٹھ کر نکل جاتے.
ارشد یوسفزئی نے مزید کہا کہ فوج ملک کے دفاع کیلئے لڑتی ہے، فوج میں یہ بات مشہور تھی کہ فوج حکومت کی کرپشن کو بچانے نہیں آئے گی، کرپٹ لوگوں نے فوج کو سپورٹ نہیں کیا تھا، پچھلے ماہ ہلمند میں فوج کو طالبان کیخلاف لڑائی میں کوئی امداد فراہم نہیں کی گئی تھی، وہ پھر سمجھنے لگ گئے کہ ایسی حکومت کے ساتھ مل کر کسی خلاف لڑنا بے فائدہ ہے.