کچے میں خونیوں کا راج ،کیا ریاست ختم ہوگئی ہے؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
رحیم یار خان کے علاقے صادق آباد میں ماہی چوک کے قریب شیخانی پولیس چوکی پر کچے کے ڈاکوؤں نے رات کی تاریکی میں راکٹ لانچرز اور جدید اسلحے سے حملہ کر کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کر دیا، جس کے نتیجے میں ایلیٹ فورس کے پانچ بہادر اہلکار شہید اور دو شدید زخمی ہو گئے جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو بھی ہلاک ہوا۔ شہید ہونے والے اہلکاروں میں محمد عرفان، محمد سلیم، خلیل احمد، غضنفر عباس اور نخیل حسین شامل ہیں، جن کی قربانی نے ایک بار پھر کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور ان کی بے خوف کارروائیوں کو آشکار کر دیا ہے۔ یہ حملہ کوئی اچانک واقعہ نہیں بلکہ سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں برسوں سے جاری ڈاکوؤں کی دہشت گردی کی ایک خونریز داستان کا تسلسل ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق شہید ہونے والے تین اہلکاروں کا تعلق بہاول نگر سے تھا جبکہ دو کا رحیم یار خان سےاور یہ تمام اہلکار گزشتہ چھ ماہ سے کچے کے انتہائی خطرناک علاقے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے اور ان کی تدفین مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کی جائے گی۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی ڈی پی او عرفان علی سموں پولیس نفری کے ہمراہ فوری طور پر موقع پر پہنچے اور جوابی کارروائی کی قیادت کی جبکہ ڈاکوؤں کا تعاقب جاری ہے اور علاقے میں سرچ آپریشن کو مزید تیز کر دیا گیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب کچے کے ڈاکوؤں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا ہو۔ سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں نے پولیس چوکیوں اور گشت پر موجود دستوں پر متعدد خونریز حملے کیے ہیں۔ مثال کے طور پر 2024 میں کندھ کوٹ سندھ میں دھودھر پولیس چوکی پر 20 سے زائد ڈاکوؤں نے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں دو اہلکار شہید اور دو زخمی ہوئے۔ اسی طرح 2022 میں گھوٹکی کے علاقے رونتی میں ڈاکوؤں کے حملے میں ایک ڈی ایس پی اور دو ایس ایچ اوز سمیت پانچ اہلکار شہید ہوئے۔ 2024 میں رحیم یار خان کے ماچھکہ میں پولیس کی گاڑیوں پر راکٹ حملے میں 12 اہلکار شہید اور چھ زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں اب تک سینکڑوں پولیس اہلکار شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ اگست 2024 تک صرف رحیم یار خان میں 17 اہلکار شہید ہوئے ہیں اور شدید زخمی ہونے والے اہلکاروں کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کئی زندگی بھر کے لیے معذور ہوئے ہوں گے۔ ان شہادتوں کے پیچھے انسانی المیوں کی ایک لمبی فہرست ہے. ہر شہید اہلکار کے خاندان کی کہانی دل دہلا دینے والی ہے، جہاں نوجوان لڑکیاں بیوہ ہوئیں، بچے یتیم ہوئے اور مائیں اپنے جوان بیٹوں کے جنازوں پر بین کرتی رہیں۔ مثال کے طور پر ماچھکہ حملے میں 12 اہلکاروں کی شہادت سے کم از کم 12 خاندان متاثر ہوئے، جن میں بیوائیں، یتیم بچے اور بوڑھے والدین شامل ہیں اور ان خاندانوں کی زندگیوں میں آنے والی تبدیلیاں ناقابل بیان ہیں جنہیں ریاست کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔
کچے کے ڈاکوؤں نے نہ صرف پولیس بلکہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ان کی دہشت گردی کی کارروائیاں صرف سڑکوں پر گشت کرنے والے اہلکاروں تک محدود نہیں بلکہ وہ شہروں اور دیہاتوں میں گھس کر شہریوں کو اغوا کرتے ہیں، ان پر تشدد کرتے ہیں اور تاوان نہ ملنے کی صورت میں بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق 2024 میں کشمور، سندھ میں تین ہندو تاجروں کو اغوا کیا گیا، جنہیں بعد میں بازیاب کرایا گیا جبکہ گھوٹکی میں 10 شہری یرغمال بنائے گئے اور رحیم یار خان میں کانسٹیبل احمد نواز کو اغوا کیا گیا، جن کی تشدد زدہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس نے عوام میں غم و غصہ پیدا کیا۔ کشمور میں 2023 میں راولپنڈی سے ایک شخص کو کاروباری جھانسے میں اغوا کیا گیا اور تاوان نہ ملنے پر بے رحمی سے قتل کر دیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکوؤں کے نیٹ ورک دور دراز کے علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ڈاکو زنجیروں میں جکڑے یرغمالیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں، جن میں وہ تشدد اور تاوان کے مطالبات دکھاتے ہیں، یہ ویڈیوز ریاست کو براہ راست چیلنج کرتی ہیں اور عوام میں مایوسی پھیلاتی ہیں۔ 2024 تک شکارپور، کشمور، گھوٹکی، سکھر اور جیکب آباد میں 40 شہری یرغمال تھے، اور تاوان کی عدم ادائیگی پر کئی شہریوں کو وحشیانہ تشدد کے بعد قتل کیا گیا، جیسے کہ 2024 میں ایک پرائمری ٹیچر اللہ رکھیو نندوانی کا قتل۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ڈاکوؤں کی دہشت صرف پولیس تک محدود نہیں بلکہ عام شہری بھی ان کے ظلم کا شکار ہیں اور انہیں ریاستی تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے شیخانی چوکی حملے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے آر پی او بہاولپور سے رپورٹ طلب کی اور ڈی پی او رحیم یار خان کو ڈاکوؤں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا، ان کا کہنا تھا کہ بزدلانہ حملوں سے پولیس کا مورال پست نہیں ہوگا اور شہید اہلکاروں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیانات محض رسمی ہیں؟ کیا ماضی میں ایسے بیانات کے بعد حالات بہتر ہوئے ہیں؟ کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشنز دہائیوں سے جاری ہیں، لیکن نتائج صفر ہیں۔ 1990 کی دہائی میں کئی آپریشنز ہوئے، لیکن ڈاکو ہر بار فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، جس سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ 2016 میں آپریشن میں چھوٹو گینگ کے 22 پولیس اہلکاروں کے اغوا کے بعد فوج کی مدد سے آپریشن کیا گیا، لیکن ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا اور چھوٹو گینگ کے کئی ارکان فرار ہو گئے یا بعد میں دوبارہ منظم ہو گئے۔
2024 میں سندھ میں پولیس اور رینجرز نے مشترکہ آپریشن شروع کیا، لیکن ڈاکوؤں کی کارروائیاں جاری رہیں، جو ان کی جڑوں کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔اور اب 2025 میں شیخانی چوکی حملے کے بعد سرچ آپریشن تیز کیا گیا، لیکن گرفتاریاں محدود ہیں۔ یہ صورتحال سوالات پیدا کرتی ہے کہ آخر ڈاکوؤں کا خاتمہ کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں،کچے کا علاقہ جغرافیائی طور پر مشکل ہے، جہاں گھنے جنگلات، جھاڑیاں اور پانی کے راستے ڈاکوؤں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کا کام کرتے ہیں اور یہ علاقہ پولیس کے لیے رسائی میں دشوار گزار ہے اور ڈاکو اس جغرافیے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ڈاکوؤں کے پاس جدید اور خطرناک اسلحہ موجود ہے، جس میں راکٹ لانچرز، خودکار ہتھیار اور حتیٰ کہ طیارہ شکن بندوقیں بھی شامل ہیں، جو پولیس کے روایتی اسلحے سے کہیں بہتر ہیں اور یہ انہیں پولیس پر برتری فراہم کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر، مقامی زمینداروں اور سیاسی شخصیات کی مبینہ پشت پناہی ڈاکوؤں کو تحفظ دیتی ہے، یہ سیاسی سرپرستی ڈاکوؤں کو قانون کی گرفت سے بچاتی ہے اور انہیں مزید مضبوط بناتی ہے۔ سندھ اور پنجاب کی پولیس کے درمیان تعاون کی کمی بھی ڈاکوؤں کو سرحد پار فرار ہونے میں مدد دیتی ہے، جس سے ان کا تعاقب مشکل ہو جاتا ہے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ڈاکوؤں نے کبھی کسی مقامی سردار، وڈیرے، وزیر، مشیر، ایم این اے یا ایم پی اے کے عزیز کو کیوں اغوا نہیں کیا؟ کیوں ان سے بھتہ نہیں مانگا؟ کیوں ان کے خاندان ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں؟ یہ سوالات ایک گہری سازش کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کشمور کے طاقتور جاگیردار سردار تیغو خان تیغانی پر ڈاکوؤں کی پشت پناہی کے الزامات ہیں، لیکن ان کے خاندان کو کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا۔ کچے کے علاقوں میں زمینداروں اور سیاسی شخصیات کی لاکھوں ایکڑ اراضی ہے، جہاں ڈاکو کاشتکاری کرتے ہیں اور اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں۔ ڈاکوؤں کو مقامی افراد سے معلومات ملتی ہیں، جو انہیں پولیس کی نقل و حرکت سے باخبر رکھتے ہیں، یہ معلومات انہیں پولیس کے آپریشنز سے بچنے میں مدد دیتی ہیں۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ نے 2024 میں اعتراف کیا کہ جب تک زمینداروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، ڈاکوؤں کا خاتمہ ناممکن ہے۔ یہ کوئی سائنس یا ریاضی کا معمہ نہیں، بلکہ ایک کھلا راز ہے کہ ڈاکوؤں کی پشت پناہی مقامی طاقتور طبقات کرتے ہیں اور جب تک ان سرپرستوں کا احتساب نہیں ہوگا، کچے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
کچے کے ڈاکوؤں کا راج کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ دہائیوں سے جاری ہے۔ پولیس کے جوان اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، شہری خوف کے سائے میں جی رہے ہیں، لیکن ڈاکوؤں کی دہشت کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا یہ ریاست کی ناکامی ہے یا دانستہ خاموشی؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف مذمتی بیانات اور عارضی آپریشنز کے بجائے ایک مستقل اور جامع حل تلاش کرے، اس کے لیے مقامی پولیس کو بھرتی کیا جائے جو کچے کے علاقوں سے واقف ہوں اور مقامی جغرافیہ کو سمجھتے ہوں، جدید اسلحہ اور گاڑیاں فراہم کی جائیں تاکہ پولیس کو ڈاکوؤں کے مقابلے میں بہتر اسلحہ اور رسائی کے لیے جدید گاڑیاں دی جائیں، پولیس اہلکاروں کو کچے کے علاقوں میں کارروائیوں کے لیے خصوصی تربیت دی جائے اور وہاں بنیادی ڈھانچہ مضبوط کیا جائے اور سب سے بڑھ کر طاقتور زمینداروں اور سیاسی شخصیات کی پشت پناہی کا خاتمہ کیا جائے جو کہ وہ اصل جڑ ہے جو ڈاکوؤں کو زندہ رکھے ہوئے ہے، ان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ضروری ہے، اور بین الصوبائی تعاون کو فروغ دیا جائے تاکہ سندھ اور پنجاب کی پولیس اور رینجرز کے درمیان موثر رابطہ کاری اور مشترکہ آپریشنز ڈاکوؤں کے فرار کے راستے بند کر سکیں۔ اگر یہ سب نہ ہوا تو شیخانی چوکی جیسے واقعات ہوتے رہیں گے اور پولیس کے جوانوں کی قربانیاں رائیگاں جاتی رہیں گی۔ ہم شہید اہلکاروں محمد عرفان، محمد سلیم، خلیل احمد، غضنفر عباس اور نخیل حسین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کی قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ امن کی قیمت خون سے ادا کی جاتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ریاست اس خون کی قدر کرے گی اور کچے کو واقعی امن کا گہوارہ بنائے گی؟