پاکستان کی موٹر وے اور پنڈی و اسلام آباد اور مری کے تعلیمی ادارے بوجہ مرمت بند رہیں گے۔ یہ اعلان تو سنا دیا گیا۔ مگر بتایا نہیں گیا کہ مرمت کس کی ہورہی ہے۔ سکول اور موٹر ویز پر تو مرمتی ٹھیکے داروں نے گندگی نگاہ تک نہیں ڈالی۔ خیر چھوڑیے۔۔۔۔۔
سنا ہے کہ قیدی آزاد ہے،اور بادشاہ فیصلے کرنے میں مفلوج۔ جسے سیاہ ست نہیں آتی تھی، اس نے ڈنگی لگا کر آنے والوں کو وخطہ ڈالا ہوا ہے۔ آزاد قیدی نے جمہوریت کے چیمپئنز کے منہ سے نہ صرف نقاب اتار ڈالا ہے۔بلکہ میدان چال میں اپنا خیمہ اتنا مضبوط کر ڈالا ہے کہ اس کے مخالفین کا سانس خود اپنی چالوں سے گھٹ رہا ہے۔
پہلے حکومتوں کے سیاسی مخالفین اپنے مطالبات کے لیے ملک کی شاہراؤں کو بند کرتے تھے۔مگر اس بار آزاد قیدی نے تاریخ بدل ڈالی۔ جیل کے سلاخوں کے پیچھے بیٹھا وہ شخص اس قدر مقبول ہوگیا ہے کہ وہ جیل میں بیٹھ کر دھرنوں اور جلسوں کا اعلان کرتا ہے۔ اور اس کے مخالفین کو ایک روز پہلے ہی نہ صرف کچھ اہم شاہرائیں بلکہ ملک کو عملی صورت میں بند کرنا پڑ جاتا ہے۔
24 نومبر کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے اڈیالہ جیل سے فائنل کال کا اعلان کیا۔ اور کارکنان کو اسلام آباد اپنی رہائی کی غرض سے ہر حال میں پہنچنے کا کہا۔ تاکہ احتجاج کرکے شہر اقتدار کو بند کیا جائے۔ اور حکومت سے مذکرات اور مطالبات منوائے جائیں۔ مگر حکومت نے اپنے سیاسی مخالف کی خواہش خود ہی پوری کر دی۔ 23 نومبر کو ملک کی اہم ترین موٹر ویز اور شاہراؤں کو حکومت نے کنٹینرز لگا کر بند کر دیا۔ اور ملک کی تقریباً 60 فی صد آبادی کو گھروں اور اپنی گلیوں میں محصور کر دیا گیا۔ دوسری جانب علی امین گنڈا پور کے پی کے کے تمام تر سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کےلیے روانہ ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور کے قافلے میں سرکاری ملازم، سرکاری مشینری اور بعض اطلاعات کے مطابق پولیس فورسز کے لوگ بھی شامل ہیں۔ جو تاحال 25 نومبر شام 7 بجے اسلام آباد نہیں پہنچے۔
کیا یہ کچھوے کی چال، آزاد قیدی کی چال تو نہیں؟۔ حکومتی رپورٹس کے مطابق احتجاج کی صورت میں ملک کی معیشت کو 190 ارب کا روزانہ نقصان ہوگا۔ بانی پی ٹی آئی تو احتجاج ہی اس لیے کر رہے ہیں کہ حکومت معاشی دباؤ میں آکر ان کے مطالبات مانے۔ مگر حکومت نے 23 نومبر کو خود ہی ملک کو بند کردیا۔ اور قیدی کی چال کو مزید کامیاب بنانے کےلیے راہ ہموار کی۔ علی امین گنڈاپور جس رفتار سے چل رہے ہیں لگتا یہی ہے کہ یہ کچھوے کی چال 27٫26 نومبر کو بھی چلے گی۔ اور یوں حکومتی حلقوں میں ٹینشن بڑھے گی۔”علی امین گنڈاپور جب لیٹ آئے گا تو ٹینشن بڑھے گا، جب علی امین گنڈاپور زیادہ لیٹ آئے گا تو زیادہ ٹینشن بڑھے گا”۔
یوں 24 نومبر کو شروع ہونے والا احتجاج 26 نومبر کو شروع ہوگا،لیکن ختم ہونے کا وقت نہیں مقرر۔ مگر تاحال ڈوبتی معیشت کو 580 ارب کا مزید غوطہ دیا جا چکا ہے۔ اور کئی ارب کا مزید خسارہ ہوگیا،مگر قیدی کو معیشت نہیں رہائی چاہیے