کہانیاں صرف وہ نہیں ہوتیں جو قلم سے لکھی جاتی ہیں، اور نہ ہی وہ جو اشاعت کی زینت بنتی ہیں۔ کچھ کہانیاں خامشی کے دبیز پردوں میں لپٹی، وقت کے کانوں میں سرگوشی کرتی ہیں۔ یہ وہ داستانیں ہیں جو کبھی کسی کتاب کے صفحے پر نہیں آتیں، مگر ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سانس لیتی ہیں۔ وہ جھروکوں سے جھانکتی ہیں، گلیوں کے گرد گھومتی ہیں، اور گواہی دیتی ہیں کہ انسان صرف جیتا نہیں، جھیلتا بھی ہے۔

کچھ آوازیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سننے کے لیے کان نہیں، دل درکار ہوتا ہے۔ وہ ماں جو ہر روز مزدوری کے لیے نکلتی ہے، اور شام کو بچوں کے لیے ہنسی اوڑھ کر لوٹتی ہے — اُس کی زندگی ایک مکمل کہانی ہے، جو شاید کبھی لکھی نہ جائے۔ وہ بزرگ جو پنشن کے لیے قطار میں کھڑے کھڑے تھک جاتے ہیں، وہ بچہ جو سڑک پر کتابیں بیچتے ہوئے تعلیم کے خواب دیکھتا ہے، وہ نوجوان جو ہر در سے مایوسی لے کر بھی ہار نہیں مانتا — یہ سب کہانیاں ہیں، مگر ان کے لیے کوئی مصنف نہیں۔

ادب کا اصل منصب یہی ہے کہ وہ اُن احساسات کو بھی جگہ دے جنہیں دنیا نظر انداز کر دیتی ہے، مگر بعض اوقات ادب بھی خاموش رہتا ہے، کیونکہ کچھ درد ایسے ہوتے ہیں جو بیان سے انکار کرتے ہیں، اور کچھ سچ ایسے جو سننے کے لیے حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب "کہانی جو لکھی نہ گئی” وجود پاتی ہے — اور قاری کے دل میں کوئی دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔

ہم نے اکثر داستانوں کو انجام کی تلاش میں پڑھا، مگر یہ وہ کہانیاں ہیں جو انجام سے پہلے ہی بھلا دی گئیں۔ ان میں نہ کوئی ہیرو ہوتا ہے، نہ قافیہ، نہ منظرنامہ — فقط حقیقت ہوتی ہے، خالص اور بے رحم۔ وہ سچائی جو صرف نظر انداز کیے گئے لوگوں کے چہروں پر لکھی جاتی ہے، یا اُن آنکھوں میں جو سوال بن کر جمی رہتی ہیں۔

یہ کالم اُنہی خاموش کہانیوں کی ایک پکار ہے — اُن لفظوں کی جو دل میں دب کر رہ گئے، اُن خوابوں کی جو بکھرنے سے پہلے پلکوں پر اترے ہی نہ تھے۔ یہ اُن لمحوں کی ترجمانی ہے جنہیں کبھی کسی نے لکھنے کے قابل نہ سمجھا، مگر وہ آج بھی ہمارے اردگرد سانس لیتے ہیں۔ وہ گلی کا نکڑ، وہ بند دروازہ، وہ خاموشی میں لپٹی کراہ — سب کچھ زبان بننے کو بےتاب ہے۔

جب ایک دن یہ سب کہانیاں اپنے لکھنے والے پا لیں گی، تب ادب کا دامن بھی مکمل ہوگا۔ تب شاید کوئی مصنف کہے گا:
"میں نے وہ کہانی لکھ دی جو لکھی نہ گئی تھی۔”

ہر درد کے نام،
ہر بے نام آواز کے احترام میں۔

ای میل: jabbaraqsa2@gmail.com

Shares: