کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی — ریاض علی خٹک

0
63

کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی. جیسے اکثر موٹیویشنل سپیکرز ہاتھی کے اس بچے کی کہانی سناتے ہیں جس کے پاوں میں ایک پتلی زنجیر ڈال دی جاتی ہے. وہ اس زنجیر کو توڑ نہیں پاتا. وقت کے ساتھ ہاتھی تو بھاری بھرکم جسامت کے ساتھ بڑا ہو جاتا ہے لیکن زنجیر وہی رہتی ہے. اب ہاتھی اسے توڑنے کی کوشش ہی نہیں کرتا. سپیکرز بتاتے ہیں کہ وہ مان چکا ہوتا ہے کہ وہ یہ زنجیر نہیں توڑ سکتا تو کیا آپ بھی اپنی زنجیروں پر یہ تسلیم کر چکے.؟

ہاتھی کی کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے. لیکن کیا ہاتھی کیلئے یہ کہانی ختم ہوئی.؟ انسانوں کے علاوہ ہاتھی ہی ہیں جو ماضی کی تکلیف دہ یادوں سے نکل نہیں پاتے. اس نفسیاتی بیماری کو PTSD کہتے ہیں. ہم انسان بھی اسکا شکار ہوتے ہیں. مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ہاتھی چڑیا گھر میں کم از کم اس بیماری سے چھٹکارا نہیں پا سکتا. اسے واپس جنگل جانا ہوگا جہاں وہ اپنے کل کا فیصلہ خود کر سکے.

ہمارے بہت خوبصورت رشتے ہوتے ہیں. ماں باپ بھائی بہن دوست عزیز و رشتہ دار لیکن کوئی آپ سے آپ کا درد نہیں لے سکتا. آپ کی تکلیف کا بھلے ان کو جتنا بھی احساس ہو وہ یہ تکلیف محسوس تو کر سکتے ہیں لیکن وہ یہ آپ سے لے نہیں سکتے. آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اپنے سر درد سے تھک گیا ہوں کچھ دیر اسے اپنے سر پر لے لو.

ہمیں واپس اپنے پاس جانا ہوتا ہے. ہمیں اپنے کل کے پاس جانا ہوتا ہے. کل کیلئے ہمارے پاس کوئی خواب ہوں کوئی منزل ہو تب آنے والا کل ہمیں گزرے کل سے کھینچ لیتا ہے. لیکن اگر ہمارے پاس کوئی خواب اور مقصد یا منزل نہ رہے تب ہم گزرے کل میں زندگی کے چڑیاگھر کا ایک کردار بن جاتے ہیں. ہماری کہانی پر وقت گزر رہا ہوتا ہے لیکن کہانی آگے نہیں بڑتی.

Leave a reply