ہم اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ معاشرہ بگڑ چکا ہے، لوگ خود غرض ہو گئے ہیں، رشتے بے معنی ہو چکے ہیں، تعلیم صرف ڈگری کی حد تک رہ گئی ہے، عبادات رسم بن چکی ہیں، اور محبت ایک سودا بن کر رہ گئی ہے۔ یہ تمام مشاہدات کسی حد تک درست بھی ہو سکتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ہم ان باتوں کو دہرا کر آخر حاصل کیا کرتے ہیں؟ کیا یہ مسلسل دہرانا دراصل ہماری اپنی بے بسی اور داخلی مایوسی کا اظہار نہیں بن چکا؟

درحقیقت تبدیلی کبھی شور و غوغا سے نہیں آتی۔ وہ ایک خاموش، مسلسل، اور اندرونی سفر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تاریخ کے بڑے انقلابات نعروں یا ہتھیاروں سے نہیں، نظریات، کردار اور حسنِ عمل سے وجود میں آئے۔ ہمیں یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر ہم خود کو بہتر بنا لیں، تو کیا معاشرہ ویسا ہی بگڑا ہوا رہے گا جیسا ہمیں دکھائی دیتا ہے؟ شاید نہیں۔

اگر ایک چراغ جلایا جائے تو اندھیرے کو چیرنے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ اگر ہر شخص اپنی ذات کے اندھیروں کو پہچان کر اُن سے نبرد آزما ہو، تو مجموعی ماحول خودبخود روشن ہونے لگتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہم روشنی پیدا کرنے کے بجائے صرف اندھیروں پر گفتگو کرنے کو "شعور” سمجھ بیٹھے ہیں۔

ہم دوسروں کی غلطیوں، لغزشوں، اور کمزوریوں پر بڑی روانی سے بولتے ہیں، مگر کیا کبھی خود پر سوال اٹھایا؟ کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہم دوسروں کو معاف کرنے کے بجائے، ان کی ایک خطا کو ان کی مکمل شناخت کیوں بنا لیتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ خود احتسابی کا راستہ سب سے مشکل مگر سب سے مؤثر ہوتا ہے۔

تبدیلی کی پہلی اینٹ اپنے اندر جھانکنے سے رکھی جاتی ہے۔ خاموشی سے، بغیر کسی اعلان کے، اپنی سوچ، اپنے عمل اور اپنے رویے کا محاسبہ کیے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔ یہ مان لینا ہی پہلا قدم ہے کہ ہم سب سیکھنے کے عمل میں ہیں، کوئی کامل نہیں۔ جب ہم خود میں بہتری کی کوشش کرتے ہیں، تو دوسروں کو بھی بہتر دیکھنے کی امید جاگنے لگتی ہے۔

کسی کو نصیحت کرنے سے پہلے اُس کی حالت کو سمجھنا سیکھنا چاہیے۔ ہر انسان ایک مکمل کہانی ہے، ایک مکمل جہان — جسے سمجھے بغیر دی جانے والی کوئی بھی نصیحت، چاہے وہ کتنی ہی سچ کیوں نہ ہو، بے اثر ہو جاتی ہے۔ اصلاح کے سب سے مؤثر ذرائع خلوصِ دل، نرم گفتگو، اور حسنِ سلوک ہیں۔

عبدالستار ایدھی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ نہ کوئی نعرہ، نہ کوئی طعنہ — صرف کردار کی روشنی۔ ان کے خاموش عمل نے ہزاروں زندگیاں بدل ڈالیں۔ ایسے لوگ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ صرف الفاظ کافی نہیں، بلکہ عمل ہی اصل ترجمان ہوتا ہے۔

آج کے بچے کل کے رہنما ہیں۔ مگر یہ رہنمائی صرف کتابوں سے نہیں، بلکہ ماحول، رویوں، اور مشاہدات سے جنم لیتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ نئی نسل ایماندار، بااخلاق اور نرم خو ہو، تو ہمیں خود اپنی زندگیوں میں سادگی، احترام اور دیانت داری کو اپنا معمول بنانا ہوگا۔

سوشل میڈیا کے شور میں ہمیں لگتا ہے کہ صرف بڑی باتیں اور وائرل جملے ہی تبدیلی لا سکتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک چھوٹا سا عمل، جیسے کسی غم زدہ دل کی خاموش دلجوئی، کسی تھکے چہرے پر مسکراہٹ، یا کسی الجھے ذہن کے لیے ایک مثبت لفظ — یہ سب تبدیلی کی وہ چنگاریاں ہیں جو اگر بھڑک اٹھیں تو انقلاب بن سکتی ہیں۔

ہمیں ایسے کرداروں کی ضرورت ہے جو چیخے نہ، صرف جئیں؛ جو نصیحت نہ کریں، مگر زندگی میں ایسی سادگی، نرمی، اور سچائی لے آئیں کہ لوگ ان کو دیکھ کر خود اپنی اصلاح کا سفر شروع کر دیں۔

ہمیں اپنے رویّوں، لہجوں، گفتگو اور سوچ کے زاویوں پر نظرثانی کرنی ہو گی۔ اصلاح کا راستہ بلاشبہ طویل اور مشکل ہے، مگر یہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں، جہاں محبت الزام سے بالاتر ہو، رشتے مفاد سے آزاد ہوں، اور اخلاق کسی رسم کا محتاج نہ ہو۔

آخر میں صرف اتنا کہنا کافی ہو گا کہ:
"اصلاح ایک آواز نہیں، ایک طرزِ زندگی ہے۔”
اگر ہم اسے خاموشی سے اپنا لیں تو تنقید کے بغیر بھی بہت کچھ بدل سکتا ہے۔

Shares: