چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے کاہنہ سے خاتون کے مبینہ اغوا پر ڈی آئی جی انوسٹی گیشن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریکارڈ اپنی تحویل میں لے لیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے کاہنہ سے خاتون کے مبینہ اغوا کیس میں حمیداں بی بی کی درخواست پر سماعت کی،دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ والدین نے بچوں کا اندراج نادرا میں کیوں نہیں کروایا، اگر نادرا میں بچوں کا ریکارڈ موجود ہوتا تو کہیں نہ کہیں سے ٹریس ہو جاتے، والدین کیوں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے، ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ذیشان رضا نے آگاہ کیا کہ ہم نے رحیم یار خان اور راجن پور کے علاقوں میں ٹیمیں بھیجی ہیں، ہیومن ٹریفکنگ کے اینگل سے بھی کیس پر تفتیش کی ہے، اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ ابھی بھی آپ کی ٹیم تفتیش کر رہی ہے؟ڈی آئی جی نے بتایا کہ تین مختلف جگہوں پر ہماری ٹیمز موجود ہیں، جن پولیس افسران نے پہلے رسپانڈ کیا ان سے بھی دوبارہ پوچھ گچھ کی، عدالت نے پوچھا کہ آپ کی ٹیم جو جامشورو گئی ہوئی ہے اس کے لیے کتنا ٹائم چاہئے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں کسی نے بھی اس خاتون کو دیکھا نہ ہو۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ ایک ٹک ٹاک اکاونٹ کو دیکھا جس پر اس خاتون کی تصویر لگی ہوئی تھی، یہ ایک کانسٹیبل کا اکاونٹ تھا جس نے بطور مزاح یہ تصویر وہاں اپلوڈ کی تھی،عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ یہ اکاونٹ کب بنا اور یہ تصویر اس پر کب لگی، یہ پولیس اہلکار ہے تو اس سے تفتیش کا طریقہ کار بھی مختلف ہی ہو گا، میں نے صرف یہ پوچھا کہ ٹک ٹاک اکاونٹ کب بنا، آپ نے کہا چھ ماہ پہلے، ایک پولیس آفیسر کیسے لڑکی کی تصویر کو ٹک ٹاک پر لے کر آیا ، یہ تصویر سوشل میڈیا پر کیسے موجود تھی؟ کیا آپ لوگوں کا ریکارڈ محفوظ نہیں ہے؟ کیا حساس ریکارڈ ہر ایک کی رسائی میں ہوتا ہے؟ آپ خواتین کا مذاق بناتے ہیں اور پھر ریکارڈ کو استعمال کرتے ہیں؟ آپ جنرل پبلک کی طرف ڈھونڈ رہے ہیں کبھی اپنی طرف بھی دیکھ لیا کریں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ سارے کیس کی فائل میرے حوالے کریں، پہلے میں کیس کی ساری فائل دیکھوں گی پھر تاریخ دوں گی۔بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔








