پشاور ہائی کورٹ اور خیبر ڈسٹرکٹ کورٹ نے کالعدم پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) سے متعلق مختلف پٹیشنز پر فیصلے جاری کیے ہیں۔ یہ فیصلے صوبہ خیبر پختونخوا کے رہائشیوں کی جانب سے پی ٹی ایم کی متوازی عدالتی نظام کے قیام کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کے نتیجے میں سامنے آئے۔خیبر کے رہائشی کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پی ٹی ایم نے متوازی عدالتی نظام قائم کر رکھا ہے، جو قانون کے خلاف ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پی ٹی ایم کو وفاق کی جانب سے کالعدم قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کی ہر قسم کی سرگرمی پر قانونی طور پر پابندی عائد ہے۔
دوسری جانب، خیبر ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک شہری کی طرف سے دائر کی گئی پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہ پی ٹی ایم کی جانب سے متوازی عدالتی نظام کے جلسے کے لیے چنی گئی جگہ متنازعہ ہے۔ کیس کی سماعت دو رکنی بینچ، جس میں جسٹس عتیق شاہ اور جسٹس صاحب زادہ اسداللہ شامل تھے، نے کی۔عدالت نے فیصلہ دیا کہ پی ٹی ایم کی کسی بھی سرگرمی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی قانونی طور پر جائز ہے۔ پشتون قومی عدالت کے لیے استعمال ہونے والی زمین بھی متنازعہ قرار دی گئی۔ اس کے نتیجے میں، عدالت نے متنازعہ زمین پر جلسے سے روکنے کے لیے سٹی آرڈر جاری کیا۔ پولیس کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کارروائی کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
عدالت نے پی ٹی ایم کے آرگنائزر اور مقامی کوکی خیل قبائلی رہنماؤں کو بھی زمین پر مداخلت سے روک دیا۔ اس فیصلے کے ذریعے عدالت نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی کالعدم تنظیم کے خلاف قانون نافذ کرنے والے ادارے کارروائی کر سکتے ہیں، اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔یہ فیصلے واضح کرتے ہیں کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا اور کسی بھی تنظیم کے غیر قانونی اقدامات کو سختی سے روکا جائے گا۔ یہ پشاور ہائی کورٹ اور خیبر ڈسٹرکٹ کورٹ کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ عوامی مفاد میں قانون کی پاسداری کو یقینی بنائیں گے۔

Shares: