شاعر ی وہ لطیف اور حساس اظہار ہے جو صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ احساسات، خیالات، خوابوں اور حقیقتوں کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس فن میں اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ ان کے کہے ہوئے الفاظ دلوں پر نقش ہو جاتے ہیں۔ سرگودھا کی تاریخی تحصیل بھیرہ کے نوجوان شاعر کامران حسانی بھی ایسے ہی خوش نصیب اور باصلاحیت شعراء میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی شاعری سے ادبی دنیا میں ایک منفرد مقام بنایا ہے۔
کامران حسانی کا نام ادب کے آسمان پر ایک روشن ستارے کی مانند جگمگا رہا ہے۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام "احساس” ایک خوبصورت تجربہ تھا جسے قارئین نے بے حد سراہا، اور اب ان کی دوسری کتاب "گل تازہ” کی رونمائی ہونے جا رہی ہے۔ یہ تقریب 23 فروری 2025، بروز اتوار، شام پانچ بجے بلوچ میرج ہال بھیرہ میں منعقد ہو رہی ہے، جس میں مشہور شاعر علی زریون مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ یہ ایک یادگار ادبی محفل ہوگی، جہاں سخن کے متوالے ایک اور خوبصورت شعری مجموعے کو خوش آمدید کہیں گے۔کامران حسانی – ایک تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے۔کامران حسانی کی شاعری ایک نئے انداز کی نمائندگی کرتی ہے۔
مری زندگی ہے چراغ سی مجھے روشنی پہ کمال ہے
مری دشمنی ہے ہواؤں سے مرا زندہ رہنا محال ہے
مجھے خوف کیا ہو بلاؤں کا ترے ہاتھ ہیں جو اٹھے ہوئے
تری خیر ہو مری والدہ تری یہ دعا مری ڈھال ہے
تجھے روکنے کا جواز تو مرے پاس تھا ہی نہیں مگر
تجھے کہ دیا ہے جو الوداع مری حسرتوں کا زوال ہے
وہ جذبات کے گہرے سمندر میں اتر کر الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انہیں ایسے ترتیب دیتے ہیں کہ قاری ایک ہی نشست میں ان کے اشعار کو پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی رنگ بھی ہے اور جدید رجحانات کی جھلک بھی ملتی ہے۔ وہ نہ صرف محبت، حسن اور وفا جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں بلکہ سماجی مسائل، انسانی نفسیات اور جدید دور کی بے حسی کو بھی اپنے اشعار میں بیان کرتے ہیں۔
دل نشیں دل ربا محبت ہے
میرا تو مدعا محبت ہے
اور دوں گا جہاں تلک پہنچے
یار میری صدا محبت ہے
ایک درویش نے کہا تھا مجھے
دل محبت ، دعا محبت ہے
تجھ کو آنا ہے گر مرے دل تک
ایک ہی راستہ محبت ہے
اس نے غصے سے پوچھا کیا ہے تمھیں ؟
میں نے بھی کہہ دیا محبت ہے
نام دونوں نے ریت پہ لکھے
اور یہ بھی لکھا محبت ہے
ایک مدت کے بعد جیون کا
راز مجھ پر کھلا ، محبت ہے
سارے الزام سہہ لیئے لیکن
میں یہ کہتا رہا محبت ہے
حل نکالے گا کوئی کیا اس کا
مسئلہ آپ کا محبت ہے
کاش تم یہ سمجھ سکو اے دوست
آدمی کی بقا محبت ہے
چاہتا ہوں جسے میں حسانی
یار وہ سر تا پا محبت ہے
کامران کی شاعری میں ایک خاص کشش ہے، جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ان کا اندازِ بیاں منفرد اور سادہ ہے، جو پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتا ہے۔ وہ روایتی غزل کے ساتھ ساتھ آزاد نظم اور جدید انداز میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں درد، امید، خواہش، بے قراری، وصل، ہجر، خواب اور حقیقت کی حسین آمیزش ملتی ہے، جو کسی بھی حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔”گل تازہ” – ایک خوبصورت پیشکش ہے۔”گل تازہ” کامران حسانی کے جذبات، احساسات اور تخلیقی سفر کا نچوڑ ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ان کے شعری سفر کا ایک سنگ میل ثابت ہوگی بلکہ ان کے مداحوں کے لیے بھی کسی تحفے سے کم نہیں ہوگی۔ اس کتاب میں موجود اشعار میں محبت کی خوشبو، ہجر کی تپش، زندگی کی حقیقتیں اور خوابوں کی نرمی یکجا ملے گی۔کتاب کا عنوان "گل تازہ” ہی اس بات کی علامت ہے کہ یہ شاعری کی دنیا میں ایک تازگی اور خوشبو بکھیرنے والی تصنیف ہوگی۔ کامران حسانی نے اپنے تخلیقی فن سے اس کتاب میں وہ رنگ بھرے ہیں جو کسی بھی ادب دوست کو اپنی گرفت میں لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ادبی منظرنامے پر کامران حسانی کی اہمیت موجود ہے۔پاکستان میں نوجوان شعراء کی کمی نہیں، لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے کامیابی کے زینے طے کرتے ہیں۔ کامران حسانی بھی انہی خوش نصیب شاعروں میں شامل ہیں جو اپنی محنت، لگن اور تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ان کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہ صرف جذباتی اور رومانی شاعری میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ ان کے اشعار میں فکری گہرائی بھی ہوتی ہے۔ وہ روایتی موضوعات کو ایک نئے انداز میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں، اور یہی چیز انہیں دوسرے شعرا سے منفرد بناتی ہے۔
فقط اتنی کہانی ہے ، محبت جاودانی ہے
جہاں تک زندگانی ہے ، محبت جاودانی کے
ہمیں موسم بدلنے ہیں ، فلک کے دوش پر مل کر
دھنک ہم نے سجانی ہے ، محبت جاودانی ہے
ابھی کھویا نہیں کچھ بھی ابھی سے تم پریشاں ہو
ابھی تو جاں گنوانی ہے ، محبت جاودانی ہے
فنا ہونے کو اس دنیا کے میلے میں سنو یارو
بھلے ہر چیز فانی ہے ، محبت جاودانی ہے
محبت مر نہیں سکتی تمھیں اتنا بتانا ہے
محبت جاودانی ہے ، محبت جاودانی ہے
اسی صحرا کے آخر پر تمھیں دریا ملے گا دوست
ذرا ہمت بڑھانی ہے ، محبت جاودانی ہے
تمھارے بعد بھی ہم کو ملے ہیں لوگ ڈھیروں پر
تمھارا کون ثانی ہے ، محبت جاودانی ہے
سنو نفرت خسارا ہے جو سب کچھ لوٹ لیتی ہے
مگر جو کامرانی ہے ،محبت جاودانی ہے
ان کے اشعار میں محبت کی خوشبو بھی ہے، فراق کا کرب بھی، زندگی کی حقیقتیں بھی اور خوابوں کی حسین دنیا بھی۔ یہی تنوع ان کی شاعری کو مزید دلکش بناتا ہے۔تقریبِ رونمائی – 23 فروری 2025 کا دن بھیرہ کے ادبی حلقوں کے لیے ایک یادگار دن ہوگا۔ بلوچ میرج ہال بھیرہ میں ہونے والی اس تقریب میں پاکستان کے نامور شاعر علی زریون بطور مہمانِ خصوصی شرکت کریں گے۔ علی زریون کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی شاعری نے نوجوان نسل کو ایک نئی سوچ دی ہے، اور ان کا موجود ہونا اس تقریب کو مزید یادگار بنا دے گا۔یہ تقریب نہ صرف "گل تازہ” کی رونمائی ہوگی بلکہ ایک مشاعرہ بھی ہوگا جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے شعراء شرکت کریں گے۔ اس محفل میں سخن کے رنگ بکھریں گے، خوبصورت اشعار کی گونج ہوگی، اور سامعین ایک منفرد ادبی تجربہ حاصل کریں گے۔کامران حسانی جیسے نوجوان شعراء اردو ادب کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔ ان کی شاعری میں جو خلوص، سچائی اور گہرائی ہے، وہ انہیں ایک بڑا شاعر بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ "گل تازہ” نہ صرف ان کے ادبی سفر کا ایک نیا سنگ میل ثابت ہوگی بلکہ اردو شاعری کے دامن میں بھی ایک خوشبو بکھیرنے والی تصنیف ہوگی۔ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کتاب نہ صرف قارئین کے دلوں کو چھوئے گی بلکہ اردو ادب میں ایک منفرد مقام حاصل کرے گی۔ کامران حسانی کی یہ کامرانی قابلِ ستائش ہے، اور ہم ان کے روشن مستقبل کے لیے دعاگو ہیں کہ وہ اسی جذبے، محنت اور لگن سے اردو شاعری کے میدان میں آگے بڑھتے رہیں۔
یوں تری بزم سے اٹھوں گا چلا جاؤں گا
تلخیاں دل کی سمیٹوں گا چلا جاؤں گا
میں بھی اس فکر کی منڈی کا بیوپاری ہوں
جو بکامال،وہ بیچوں گا چلا چاؤں
کامران کی کامرانیاں –”احساس” اور "گل تازہ” .تحریر:شاہد نسیم چوہدری
