اترپردیش کے ضلع مرادآباد میں ایک نہایت افسوسناک اور شرمناک واقعہ منظرِ عام پر آیا ہے، جہاں ایک مدرسے کی انتظامیہ نے آٹھویں جماعت میں داخلے کے لیے ایک کمسن لڑکی سے کنوارہ پن کا سرٹیفکیٹ طلب کیا۔ یہ واقعہ پاکبارہ تھانہ حدود میں قائم جامعہ احسان البنات نامی مدرسے میں پیش آیا۔
متاثرہ طالبہ کے والدین، جن کا تعلق چندی گڑھ سے بتایا گیا ہے، نے الزام عائد کیا ہے کہ مدرسہ انتظامیہ کی جانب سے ان کی بیٹی کے کردار پر سوال اٹھایا گیا اور داخلہ دینے سے پہلے "طبی معائنہ” کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ والد کے مطابق داخلہ سیل انچارج شاہجہاں، پرنسپل اور دیگر عملے نے واضح طور پر کہا کہ جب تک لڑکی کا میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا جاتا، اسے داخلہ نہیں دیا جائے گا۔والد نے الزام لگایا،میری بیٹی میرے ساتھ اکیلی تھی۔ مدرسے نے مجھ سے کہا کہ اس کا میڈیکل ٹیسٹ کرواؤ اور کنوارہ پن کا سرٹیفکیٹ لاؤ، ورنہ ایڈمیشن نہیں ملے گا۔ میں نے انکار کیا تو انہوں نے میری بیٹی کو مدرسے سے نکال دیا اور میرے ساتھ بدتمیزی بھی کی۔
متاثرہ کے والد نے مدرسہ انتظامیہ کے رویے کے خلاف ایک ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کی، جو تیزی سے وائرل ہو گئی۔پولیس کے مطابق انہیں 14 اکتوبر کو ڈاک کے ذریعے ایک تحریری شکایت موصول ہوئی تھی۔ شکایت موصول ہونے کے بعد ابتدائی تحقیقات کے نتیجے میں پولیس نے مدرسے کی ایڈمیشن سیل انچارج شاہجہاں، پرنسپل، اور دیگر عملے کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مزید شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور تفتیش مکمل ہونے پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
رپورٹس کے مطابق، جب لڑکی کے والد نے کنوارہ پن سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے صاف انکار کیا، تو مدرسہ کے عملے نے ان کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کیا اور انہیں مدرسے سے زبردستی باہر نکال دیا۔ اس واقعے کے بعد متاثرہ خاندان نے انصاف کے لیے پولیس سے رجوع کیا۔ واقعے نے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ شہریوں اور سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کو کسی طالبہ کی عزت و وقار کو مجروح کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ شہریوں نے حکومتِ اترپردیش سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کے ذمے داروں کو سخت ترین سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ادارہ اس طرح کی غیر اخلاقی حرکت کرنے کی جرات نہ کرے۔








