کامیابی کا کھویا — ابن فاضل

مانسہرہ سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر، قومی شاہراہ سے آٹھ دس کلومیٹر اندر دشوار گذار پہاڑی راستہ پر واقعہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے. بفہ.. یہاں ایک صاحب ایک قسم کی مٹھائی بناتے ہیں جسے یہ لوگ کھویا کہتے ہیں. دودھ کی ربڑی کو دیسی گھی میں پکانے کے بعد مناسب مقدار میں شکر شامل کرکے ایک دانے دار براؤن سی حلوہ نما یہ مٹھائی بہت ہی خوش ذائقہ ہوتی ہے.

لوگوں میں اس کی پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ بغیر پیشگی بکنگ اس کی دستیابی ناممکن ہے. حالانکہ منوں کے حساب سے روزانہ بنایا جاتا ہے. ملک کے طول وعرض سے لوگ بطور سوغات اسے منگواتے ہیں بلکہ بیرون ملک بھی بجھواتے ہیں. پچھلے دنوں مانسہرہ جانا ہوا تو جی میں آئی کہ تھوڑا سا کھویا ہم بھی لیجائیں. ایک دوست کو لینے کے لئے بھیجا. معلوم ہوا کہ ایڈوانس بکنگ کے بغیر آئے ہیں اس لیے نہیں مل سکتا. بہر حال بمشکل تمام کچھ مذاکرات کے بعد کسی اور گاہک کے بڑے آرڈر میں سے کچھ ڈبے ہمارے حصہ میں آئے.

اب دیکھیں کہ کیسی حوصلہ افزا کامیابی کی داستان ہے. کسی بھی بڑے شہر سے دور، دشوار گزار پہاڑوں کے درمیان اس صاحب ہنر نے اپنی سوچ اور محنت سے کیسا راستہ نکالا. اس مشکل کے باوجود کہ اس مٹھائی کی تیاری کےلیے دودھ بھی مقامی طور پر دستیاب نہیں، ساہیوال کے نواح سے منگوایا جاتا ہے. اس خطے میں جہاں نوے فیصد لوگ مواقع اور وسائل کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں اس صاحب عمل نے ایسی مثال قائم کردی ہے کہ ناکامی کے دیگر تمام نوحے تن آسانی اور غیر عملیت پسندی کا شاخسانہ لگنے لگے ہیں.

پیغام بڑا سادہ اور واضح ہے. بے شک مسائل ہوتے ہیں. بے شک وسائل اور مواقع کی عدم دستیابی اور معاشرتی منفی رویوں کے سپیڈ بریکر موجود ہیں. مگر مستقل مزاجی، محنت اور حکمت سے راستہ بنانے والے منزل پا ہی لیتے ہیں. اگر آپ کی مایوسی کی وجہ بھی وسائل اور مواقع ہیں تو ازسر نو غور کی صلاح دی جاتی ہے.

Comments are closed.