بیجنگ: چینی سائنسدانوں نے کنول کے پتوں سے توانائی پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

باغی ٹی وی: چینی سائنسدانوں نے توانائی پیدا کرنے والا ایک ایسا جنریٹر بنایا ہے جو بجلی پیدا کرنے کے لیے پودوں کو استعمال کرتا ہے،ٹیم نے کہا کہ اس کا لیف ٹرانسپائریشن جنریٹر، جس کا انھوں نے کنول کے پتوں سے مظاہرہ کیا، چھوٹے الیکٹرانک آلات کو طاقت دینے کے قابل ہے اور اسے پلانٹ سے چلنے والے بجلی کے نیٹ ورکس کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ٹیم نے جریدے نیچر واٹر میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں لکھا کہ یہ مطالعہ نہ صرف پتوں کے بے مثال ہائیڈروولٹک اثر کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ سبز توانائی کی ٹیکنالوجیز کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نیا تناظر بھی فراہم کرتا ہے۔

ہائیڈرو والٹک توانائی کے حصول کے لیے ٹھوس سطح پر پانی کی حرکت پر انحصار کیا جاتا ہے، مگر اس کے لیے مسلسل پانی کی سپلائی کی ضرورت ہوتی ہےمگر تحقیق میں بتایاگیا کہ پودوں کے پتوں سے قدرتی طور پر خارج ہونے والے بخارات میں بہت زیادہ توانائی چھپی ہوتی ہے مگر اب تک اس پر زیادہ کام نہیں کیا گیا،اس عمل میں پودے کی جڑوں سے اوپری سرے تک پانی حرکت کرتا ہے اور پتوں یا پھولوں سے بخارات کی شکل میں خارج ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں زیر استعمال موبائل لبنان واقع کی طرح پھٹ سکتے؟قائمہ کمیٹی

اسی عمل کو دیکھتے ہوئے چینی سائنسدانوں نے ایک پروٹوٹائپ ڈیوائس تیار کی ہے جو اس عمل سے بجلی بنانے میں کامیاب رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر پتوں کے ذریعے بجلی کا حصول ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑے پیمانے پر ممکن ہوسکتا ہے، یہ ماحول دوست توانائی ہوگی جس کے لیے زیادہ خرچہ بھی نہیں کرنا پڑے گا،جنریٹر جیسی پروٹوٹائپ ڈیوائس کو کسی بھی جگہ جیسے فارم میں استعمال کیا جاسکے گا اور زیادہ بڑے اسٹرکچر کی ضرورت نہیں ہوگی۔

ہزار سال پرانے بیج سے بائبل کے درخت کی پیدائش

سائنسدانوں کے مطابق پودے مسلسل اپنے اردگرد کے ماحول کے ساتھ پانی خارج کرتے ہیں تو اس جنریٹر کے ذریعے دن بھر بجلی کی تیاری ممکن ہوسکے گی، خاص طور پر ان مقامات پر جہاں دن بھر سورج کی روشنی موجود ہوتی ہے ابھی ایک پتے سے حاصل ہونے والی بجلی بہت کم ہے مگر تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ متعدد پودوں اور پتوں کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جاسکتا ہے جس سے زیادہ بجلی کا حصول ممکن ہو جاتا ہےسائنسدانوں کی تیار کردہ ڈیوائس کی ابتدائی آزمائش جاری ہے اور وہ مختلف طریقوں کو جانچ کر اس ٹیکنالوجی کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

Shares: