کپتان کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں، تحریر: نوید شیخ

0
56

اس وقت خبریں اتنی ہیں اور اتنی تیزی سے سیاسی بھونچال جاری ہے کہ سمجھ نہیں آرہا کہ کون سی خبر دی جائے اور کون سی نہ دی جائے ۔ ۔ بکنے ، بولی لگوانے ، خریدنے اور جوڑ توڑ کا بازار گرم ہے ۔ عمران خان بھی میدان میں ہیں اور اپوزیشن بھی میدان عمل میں ہے ۔ ۔ اپوزیشن تو تحریک عدم اعتماد لا ہی رہی ہے ۔ اب حکومت نے بھی قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد لانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ قرار داد پی ٹی آئی رکن اسمبلی فرخ حبیب پیش کریں گے۔ ۔ پی ٹی آئی کا پلان یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کے فیصلے تک شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں تقریر نہ کرنے دی جائے۔۔ تو دوسری جانب اپوزیشن کے کمیپ سے اطلاعات ہیں کہ درعمل میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق کرلیا ہے ۔

۔ اس صورتحال پر اسد قیصر کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد اپوزیشن کا آئینی حق ہے لیکن ہم بھی پوری طرح تیار ہیں۔ کل بھی پرویز الٰہی سے ملاقات ہوئی، انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ وہ 2023 تک ہمارے ساتھ ہیں۔ ۔ اسی لیے ق لیگ کو توڑنے کے لیے لگتا ہے کہ اب اپوزیشن نے جہانگیر ترین کو میدان میں اتار دیا ہے ۔ کیونکہ جہانگیر ترین گروپ کی باقاعدہ ایک میٹنگ ہوچکی ہے گزشتہ روز اس گروپ کے لوگ جہانگیر ترین کی قیادت میں پی ایس ایل کا میچ بھی دیکھنے گئے ۔ اور بتایا جا رہا ہے کہ اگلے ہفتے سے مولانا کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین نے بھی ایکٹو ہوجانا ہے ۔ اب پیپلزپارٹی کے بعد ترین گروپ کی چوہدری برادران سے ملاقات کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پھر امید کی جارہی ہے کہ جہانگیر ترین کی جلد شہباز شریف سے ملاقات ہوگی۔ ۔ جہانگیر ترین فیکٹر اس وقت بہت اہم ہوچکا ہے ۔ کل اس حوالے سے سلیم صافی نے ایک ٹویٹ بھی کی جو میں آپکو سنا دیتا ہوں ۔۔۔ آج مولانا سے ملاقات میں عدم اعتماد سے متعلق اپوزیشن کی حکمت عملی کو سمجھنے کی کوشش کی وہ تفصیل بتانے سے گریز کررہے تھے لیکن اتنا پتہ چلا کہ اصل منصوبے سے مولانا ، نواز ، شہباز، زرداری ، بلاول اور جہانگیر ترین آگاہ ہیں ۔

۔ یعنی جہانگیر ترین اس گیم پلان کا حصہ ہیں ۔ اور دیکھا جائے تو خالی جہانگیرترین اس قابل ہیں کہ وہ بغیر کسی اتحادی ہے کہ پوری کی پوری بساط کو الٹا سکتے ہیں ۔ ۔ پھر کہا جا رہا ہے کہ اتوار کے روز ق لیگ اور شہباز شریف کی بھی ملاقات ہوجائے گی ۔ جبکہ مولانا اور شہباز شریف کی آج ماڈل ٹاون میں ملاقات ہونی ہے ۔ اسکے علاوہ مولانا نے ق لیگ کی قیادت سے بھی ملاقات کرنی ہے ۔ ۔ اسکے علاوہ ایاز صادق جو لندن گئے ہوئے تھے۔ ان کی اور نواز شریف کے ساتھ اندرونی ملاقات کی کہانی سامنے آگئی ہے کہ جن بائیس لوگوں کا ن لیگ کی جانب سے دعوی کیا جا رہا تھا کہ ٹوٹنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ ان میں سے اٹھارہ پر نواز شریف مان گئے ہیں کہ اگلے الیکشن میں ان کو ٹکٹ دے دیا جائے یا پھر accomodate
کردیا جائے گا ۔ باقی چار ایسے لوگ تھے جن کے بارے نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ تو ہر دور میں اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں اور انھوں نے ان کے بارے لفظ استعمال کیا کہ یہ سدا بہار فصلی بیٹرے ہیں ۔ میں انکو اپنی پارٹی میں نہیں لوں گا ۔ ان اٹھارہ لوگوں میں چند وفاقی وزیر بھی شامل ہیں ۔ پر ان کی خواہشں ہے نواز شریف بذات خود ان سے ملاقات کریں اور ٹکٹ دیں ۔ ۔ اس حوالے سے رانا ثنااللہ نے بھی کنفرم کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی لوگ رابطے میں ہیں، تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سوچ رہے ہیں کسے رکھیں کسے نہ رکھیں۔ ۔ پھر ایک اور خبر جو عمران خان سمیت حکومت کے کڑاکے نکال دینے والی ہے کہ سینیٹ کا اجلاس سپیکر کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی ۔۔۔ باپ ۔۔۔ نے کابینہ میں نمائندگی کا مطالبہ کردیا اور کہا ہے کہ اگر کابینہ میں نمائندگی نہیں دی گئی تو ہم حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ سینیٹر پرنس عمر احمد زئی نے اس مطالبے کے حق میں ایوان سے احتجاجاً واک آوٹ کیا۔ان کے واک آؤٹ پر پیپلز پارٹی نے بلوچستان عوامی پارٹی کو اپوزیشن کی بنچوں پر آنے کی پیشکش کردی۔

۔ پھر ناراض سینیٹر احمد عمر زئی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ہمیں اشارے ملنا بند ہو گئے ہیں۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر بار بلوچستان سے کم سے کم پانچ وزیر ہوتے ہیں، تاہم اس وقت ہماری صرف ایک وزیر زبیدہ جلال ہیں جس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔۔ پھر یاد رکھیں میں گزشتہ کئی دنوں سے اپنے وی لاگز میں بتا رہا ہوں کہ ابھی مولانا فضل الرحمان نے انٹری مارنی ہے ۔ جب وہ کھل کر سامنے آئیں گے تو کپتان ، حکومت اور وزیروں کی شکلیں بھی دیکھنے والی ہوں گی اور چینخ وپکار بھی ۔۔۔ ویسے آج سے یہ انٹری بھی ہوجائے گی ۔ ۔ اس سب سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عدم اعتماد کی چنگاری شعلہ بنتی نظر آرہی ہے۔ کیونکہ کہیں نہ کہیں ایسے بیک ڈور اشارے ضرور ہیں جس کے بعد اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف محاذ جنگ گرم کیا ہے۔ ۔ فی الحال دیکھنا یہ ہے کہ جب کھچڑی پکے گی تو کیا ہو گا آیا اپوزیشن حکومت کے خلاف اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکے یا پھر پہلے کی طرح شور ہی مچاتی رہے گی ۔۔ میرا اندازہ ہے کہ شو آف ہینڈز کے ذریعے عدم اعتماد کی تحریک لانا خاصا دشوار ہے جبکہ خفیہ بیلٹ کے ذریعے ایسا نتیجہ آسکتا ہے۔ جس کا شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔ سب کو معلوم ہے کلیدی کردار کن قوتوں کا ہوسکتا ہے۔ جب معاملات کنفیوژن کا شکار ہوں، مقابلہ برابر کا ہو۔ ہاں۔ ہاں اور ناں۔ناں کی گردان سنائی دے رہی ہو تو یقین سے شاید کوئی فریق بھی نہیں بتاسکتا کہ اس کی اگلی چال کیا ہوگی۔۔ پی ٹی آئی حکومت پانچ سال پورے کرتی ہے یا نہیں اس حوالے سے کوئی بھی حتمی بات نہیں کی جاسکتی مگر منظر و پس منظرکے پیش نظر عدم اعتماد کا کامیاب نہ ہونا ناممکن نہیں دکھائی دیتا۔ ۔ کیونکہ زرداری، نواز ، مولانا، بلاول، شہباز اور مریم کی آنکھوں کی تڑپ اور لہجے کا اعتماد بتارہا ہے کہ انہوں نے 172 کے ہندسے تک پہنچنے کیلئے کھیل مکمل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔۔ پھر وزیروں اور مشیروں کی بے چینی سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ان میں ہیجان موجود ہے اور گھبراہٹ بھی۔ ۔ کہنے والے تو کہہ رہے ہیں کہ دن گنے جاچکے، نئے وزیر اعظم کے چناؤ تک پر اتفاق ہوگیا، بس اعلان ہی باقی ہے جو عنقریب متوقع ہے ۔ لیکن سمجھ سے بالاتر ہے کہ ۔ یہ کام ہوگا کس طرح؟ ۔ کوئی ایمرجنسی؟
۔ مارشل لاء آخر ایسا کیا ہوگا کہ حکومت چلتی بنے گی؟ ۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ ہماری سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بڑھی پڑی ہے۔ کہ افواہیں سچ ثابت ہوئیں ہیں ۔

۔ ان حالات میں بہت سے لوگ جو یوکرائن کے معاملے کو نظر انداز کررہے ہیں ان کو اندازہ نہیں کہ اگر یہ جنگ چھڑ گئی تو اس کے سب سے زیادہ اثرات ہماری اندرونی سیاست پر پڑیں گے ۔۔ کیونکہ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہہ دیا ہے کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو وہ امریکیوں کو باہر نکالنے کے لیے ریسکیو دستے نہیں بھیجیں گے لہٰذا یوکرین میں موجود امریکی فوری طور پر ملک چھوڑ دیں۔ یاد رکھیں امریکہ نے جب جب چاہا ہے ہمارے ملک میں تبدیلی مہینوں اور دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں رونما ہوئی ہے ۔ ۔ مگر سازشی تھیوریوں سے ہٹ کرسچ یہ ہے کہ کہنے کو عمران خان اپنے خوشنما نعرے نیا پاکستان کی وجہ سے اقتدار میں تو آ گئے مگر وہ اشرافیہ کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے اور نہ عوام کو آزاد کرا سکے۔ انھوں نے پرانے پاکستان کے وہ تمام استحصالی چہرے نئے میک اپ کے ساتھ لانچ کیے جو دہائیوں سے ملک پر مسلط تھے ۔ پھر سب سے دیکھا کہ جلد ہی عمران خان نے پرانے پاکستان کی ہیت بدل کر اور بھی زیادہ استحصالی پاکستان بنا دیا۔ یوں ایک بار پھر وہ نظریہ جیت گیا جو عوام دشمن پر مبنی ہے اور وہ ہار گیا جو عوام دوستی کا مظہر ہے۔ اس لیے اب عوام اس دھوکہ دہی پر کپتان کا سبق سیکھنا لازمی سمجھتے ہیں ۔ اور ایسا پہلی بار دیکھا جا رہا ہے کہ لوگ اتنا تنگ ہیں کہ وہ ان کو مسیحا ماننے پر تیار ہیں جو اس حکومت سے ان کی جان چھوڑوا دے ۔ ۔ حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں، عمران خان کیلئے بھی یہی وہ موڑ ہے جہاں انہیں اپنی کمزور گورننس پر معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے بجائے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ایک طرف وہ پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے اپنی کارکردگی کے وہ پہلو اجاگر کررہے ہیں،جس سے ان کا دور حکومت چمکتا نظر آئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کے مارے لوگ ان کی کسی بات پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ، افراتفری اور بد انتظامی کے عروج پر ہے پھر بھی نت نئے تجربات زیرِ غور ہیں۔ یوں ملک کے غریب ، مفلس ، بے بس عوام آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے اور کب آتا ہے؟

Leave a reply