دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر، سب سے بڑی اور پرانی بندرگاہ ، سارے ملک کے تمام شہروں کے اجتماعی ریونیو سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے والے اکیلے شہر کراچی کی “ایڈمنسٹریشن سے شہر کے برساتی نالے صاف نہیں ہوسکے” (جیو نیوز رپورٹ) ۔ شہری اربن فلڈنگ کے لئے تیار رہیں۔ کراچی والو فیر آیا جے غوری۔
کراچی کے 41 بڑے اور 514 چھوٹے برساتی اور گندے پانی کی نکاسی کے نالے اس وقت گجر نالے اور اورنگی نالے کی قیادت میں ، شہر پر یلغار کرنے کو تیار ہیں۔ محکمہ موسمیات ،صوبائی محکمہ برائے انتظام آفات اور کراچی کی شہری حکومت وارننگ جاری کرکے اپنے تئیں بری الذمہ ہو چکے ہیں۔ تاہم مجاہد کرینیں اور ان کے غازی مزدور نالوں سے کچرہ نکالنے کی نیم مردہ کوششیں ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ادھر لاہور کے لکشمی چوک میں بھی بارشی پانی کے استقبال کی تیاریاں کی جارہی ہے۔پنڈی کا نالہ لئی بھی خاموشی سے وار کرنے کے انتظار میں ہے۔
اس سال کراچی ، لاہور اور پنڈی میں پھر وہی کہانی دہرائے جانے کے لئے تیار ہے ۔ہرسال کی طرح زور کی بارشیں،غضب کا مون سون ،تالاب منظر سڑکیں، گرتے مکانات ، مرنے والے عام شہری اور اربن فلڈنگ میں برباد ہوتی عوام کی عمر بھر کی جمع پونجی۔
اقتداریہ کے اجلاس پہ اجلاس، پانی نکالنے کی ہدایات، رپوٹوں کی طلبی، امداد کے اعلانات اور فوٹو سیشن، دو چار افسران کی سرزنش اور پھر آئندہ مون سون تک لمبی تان کر سونا۔ مجال ہے کہ اربن فلڈنگ کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کیلئے بر وقت اقدامات کا سوچا جائے اور اسے اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا جائے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو ہر سال تقریباً 1.80 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوجاتا ہے۔ جبکہ ہم سخت شرائط کے بعد 1ارب ڈالر کا قرض لینے کے لئے آج کل آئی ایم ایف کی منتیں ترلے کر رہے ہیں۔ہم اربن فلڈنگ کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرکے ہر سال کئی ملین ڈالر کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔
ملائیشیا کے شہر کوالالمپور کا ڈرینیج ماسٹر پلان 1978 میں بن چکا تھا جس وقت بقول شخصے ملائیشیا کا وزیراعظم پاکستان سے گندم ادھار لینے کے لئے خود چل کر پاکستان آتا تھا ۔میں خود سنہ 2000 کی دھائی میں دو تین سال کوالالمپور کے اسٹریجک سٹارم واٹر مینیجمنٹ پلان پر کام کرنے والی ٹیم کا حصہ رہا تو معلوم ہوا کہ کوالالمپور کی شہری حکومت کی ہدایت ہے کہ ایسا منصوبہ بنا کر دیں کہ شہر کے کسی بھی علاقے میں آدھے گھنٹے سے کم وقت کی اربن فلڈنگ بھی نہ ہو حالانکہ وہاں روزانہ اتنے بڑے حجم کی بارش (80 ملی میٹر) ہوتی ہے جتنے کی آج محکمہ موسمیات نے کراچی میں ہونے پیشن گوئی کی ہوئی ہے اور کراچی شہر کی ایڈمنسٹریشن نے ہاتھ کھڑے کردئے ہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس وقت کوالالمپور میں بارش ہونے اور اربن فلڈنگ کے درمیان صرف آدھے گھنٹے کا ریسپانس ٹائم ملتا تھا۔ اس پر بھی شہری حکومت نے ہمیں یہ وژن دیا کہ آپ بارش کو بھول کر ایسی ٹیکنالوجی استعمال کریں کہ بادلوں کے بننے کے پیٹرن سے اربن فلڈنگ کی پیشن گوئی ہوسکے جس سے ریسپانس ٹائم بڑھ جائے گا۔ ہمارے ہاں تو محکمہ موسمیات پچھلے ایک مہینے سے چیخ رہا ہے لیکن ہم اپنے سب سے بڑے کمرشل ہب کراچی کے برساتی نالے نہ صاف کرسکے۔
کراچی میں تو بارشی پانی کی نکاسی کوئی مسئلہ ہی نہیں ہونا چاہئے جہاں سمندر کی شکل میں اتنا بڑا نکاسی کا ڈرین موجود ہے۔ وفاقی حکومت اربن فلڈنگ کو اپر چیونٹی سمجھتے ہوئے فوری طور پر شہر کے اربن سٹارم واٹر منیجمنٹ پلان پر کام شروع کردے۔ کسی ایک بڑی سڑک کے نیچے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے سگنل فری سٹارم وے واٹر ٹنل بنائی جائے ۔ یہ ایک بڑے قطر کی (40فٹ تک) سرنگ ہو جس کے اندر دوتین منزلیں ہوں۔ سب سے نچلی منزل سارا سال گندے پانی کی نکاسی کے لئے استعمال ہو جب کہ اوپر والا پہلا فلُور آنے والی ٹریفک اور دوسرا فلور جانے والی ٹریفک کے لئے استعمال ہو۔جس کا باقاعدہ ٹول ہو۔
اس ٹنل پر 7/24 موٹروے پولیس پٹرول ، ایمرجنسی فون سروس، سائن بورڈ، بچاو کے راستے اور ایمرجنسی مینار ہوں گے۔ انہی میناروں سے تازہ ہوا کی فراہمی اور ٹریفک چلنے کی صورت میں ہوا کی کوالٹی ٹھیک رکھنے کے لئے وینٹی لیشن اور ایگزاسٹ کا بندوبست ہوگا۔
اربن فلڈنگ کی وارننگ کی صورت میں ایک دن پہلے ہی ٹنل کے دونوں اوپر والے فلور ٹریفک کے لئے بند کر دئے جائیں اور مون سون کے دنوں میں ٹنل کے تینوں فلور بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے استعمال ہوں۔ بارش کے دنوں میں شہری حکومت ٹنل کمپنی سے اسٹارم واٹر وےکرائے پر لے کر نکاسی آب کے لئےاستعمال کرے۔ بارش کا پانی گزر جانے کے بعد ٹنل کمپنی اس کی صفائی کرکے دوبارہ ٹریفک چلا دے۔
عام دنوں میں ٹریفک کے رش سے بچنے والے شہری ٹنل کا انتظام کرنے والی کمپنی کو ٹول دے کر سگنل فری اربن سٹارم واٹر وے استعمال کریں۔ شہر میں ٹریفک جام کم ہوں اور صاحب استطاعت شہریوں کا وقت بھی بچے۔
یہ راستہ ایمبولینس اور فائر بریگیڈ والے بھی استعمال کریں ۔ اقتداریہ بھی یہ راستہ استعمال کرکے عام آدمیوں کو پروٹوکول لگنے کی صورت میں ہونے والی تکلیف سے بچا سکتی ہے۔یہ ٹنل قدرتی آفات جیسے زلزلہ یا سائیکلون کی صورت میں بطور پناہ گاہ بھی استعمال ہوسکتی ہیں اور خدانخواستہ کسی جنگی صورت حال میں بطور بنکر بھی۔
لاہور کے پانی کا قدرتی ڈرینیج دریائے راوی ہے جہاں تک بارشی پانی کو شہر کے بقیہ حصوں سے پہنچنے میں اوسطا 10 کلومیٹر تک فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ صوبائی حکومت شہر میں ایک گندے نالے کو چھت ڈال کر سڑک کے لئے استعمال کرنے کا کامیاب تجربہ کر چکی ہے جس سے نالہ کچرہ پھینکنے سے بھی بچا ہوا ہے۔ تین چار جگہوں پر انڈر گراونڈ ٹینک بنا کر بھی بارش کا پانی جمع کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔
لاہور میں بھی کسی ایک بڑی سڑک جیسے مال روڈ، جیل روڈ، فیروز پور روڈ کے نیچے دریائے راوی تک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے سگنل فری اسٹارم واٹر وے ٹنل بنائی جا سکتی ہے۔ ایک اور بہترین راستہ لاہور کینال کے نیچے ٹنل بنانے کا ہے۔ٹنل کی مالک کمپنی سے LDA مون سون کے تین مہینوں کے لئے بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے ٹنل کرائے پر لے لے اور بقیہ 9 مہینوں میں ٹریفک کے رش سے بچنے والے شہری ٹنل کمپنی کو ٹول دے کر سگنل فری اسٹارم وے استعمال کر لیں۔یہی کام نالہ لئی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ یہ پراجیکٹ بھی PPP پر بنایا جا سکتا ہے۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ ٹنل والا تو بہت ہائی ٹیک اور مشکل کام ہے تو پھر کم ازکم لاہور شہر کی مثال سامنے رکھتے ہوئے برساتی گندے نالے کو چھت ڈالیں اور اوپر سڑک بنادیں جو ارد گرد کی سڑکوں سے نیچی ہو اور اس کی سائیڈ پر دیواریں ہوں ( سیمی انڈر پاس )۔ چھت کے نیچے والے پرانے نالے میں عام دنوں میں پانی چلے اور اوپر سیمی انڈر پاس پر ٹریفک چلے۔
بارش کی صورت میں اوپر والی سیمی انڈر پاس سڑک پر بھی بارشی پانی ڈال دیں جو سگنل فری اسٹارم وے سے جلد ہی سمندر برد ہوجائے گا یا جاکر بوڑھے دریائے راوی کی پیاس بجھائے گا ۔ بارش ختم ہونے کے بعد پھر اس پر ٹریفک چلا دیں۔ہاں اس منصوبے کو کمرشل بنیادوں ہونا چاہئے۔
سگنل فری سٹارم واٹر وے ٹنل ان اقدامات کے علاوہ ہوگی جو وقتا فوقتا بارشی پانی کی کھپت کے لئے عرض کرتا رہتا ہوں جیسے پارک، میدان اور کھلی جگہوں پر ڈونگی گروانڈ اور تالاب وغیرہ بنا کر پانی چوس کنوؤں (ری چارج ویل) کے ذریعے بارش کے پانی سے زیرزمین پانی تی چارج کرنا یا نشیبی جگہوں پر زیرزمین پانی ذخیرہ کرنے کے اسٹوریج ٹینک بنانا۔ واٹر بینک بنانا( میری گزشتہ کل کی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں)۔ وغیرہ وغیرہ۔
تو پھر کیا سوچ رہے ہیں آپ۔ دیر کس بات کی۔ اس دفعہ کراچی لاہور اور پنڈی کے شہری اپنے نمائندوں سے ضرور اس بارے مطالبہ کریں۔








