کراچی ایک بار پھر ماتم کناں ہے ایک ایسا ماتم جو صرف ایک گھر کا نہیں بلکہ سارے شہر کے ضمیر کا ماتم ہے تین سالہ ابراہیم کا کھلے مین ہول میں گر کر جان گنوا دینا کوئی حادثہ نہیں، یہ اس بوسیدہ نظام کا کھلا اعتراف ہے جو شہریوں کی زندگیوں کو محض اعداد و شمار سمجھ کر نظر انداز کرتا ہے۔یہ سانحہ ایک معصوم بچے کی موت نہیں بلکہ ہمارے بلدیاتی ڈھانچے کی سنگین نا اہلی اور شہری حکومت کی شرم ناک بے حسی کا نوحہ ہے ،یہ واقعہ صرف ایک معصوم بچے کی جان کا سانحہ نہیں، بلکہ ہمارے بلدیاتی نظام کی سنگین نااہلی اور شہری حکومت کی مجرمانہ بے حسی کا نوحہ ہے۔ نیپا چورنگی جیسے مصروف مقام پر کھلا مین ہول کئی دنوں، بلکہ ہفتوں سے شہریوں کے لیے موت کا پھندا بنا ہوا تھا، مگر جسے صرف متعلقہ ادارے ہی نہ دیکھ سکے، نہ کسی کی فریاد سن سکے، نہ ہی حرکت میں آئے۔ تین سالہ ابراہیم کا اندوہناک موت اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے شہر میں جان کی قیمت صفر ہے اور ذمہ داری نام کی کوئی چیز موجود نہیں، بلدیاتی ادارے جن کا کام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے، وہ خوابِ غفلت میں ڈوبے رہتے ہیں، اور ہر حادثے کے بعد صرف میڈیا پر ان کے بیانات کی بازگشت سنائی دیتی ہے ،تحقیقات کا اعلان کیا جاتا ہے کمیٹیوں کے قیام کی خبریں چلتیں ہیں اور دھیرے دھیرے معاملے کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے اوت پھر مکمل خاموشی، شہری حکومت کی یہ بے حسی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا کراچی کے لوگوں کی زندگیوں کو حقیقی معنوں میں کوئی اہمیت حاصل بھی ہے یا نہیں؟

ایک کھلا گٹر، ایک چھوٹا سا مین ہول ڈھکن، اور ایک لمحہ کی کوتاہی ، اتنی معمولی سی چیزیں اگر زندگی اور موت کا فیصلہ بن جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ریاست اپنے شہریوں سے اپنا بنیادی فرض ادا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ابراہیم کی موت نظام کی ناکامی کا ایسا ثبوت ہے جسے کوئی بھی صفائی، کوئی بھی بیان، اور کوئی بھی سیاسی جواز نہیں چھپا سکتا۔یہ وقت ہے کہ شہری حکومت سامنے آئے اور عوام کو جواب دے تاکہ واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین ہو، اور کراچی کے لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کی زندگیاں کسی کے سفارشی نظام، نااہلی، یا غفلت کی بھینٹ نہیں چڑھیں گی۔ورنہ کل کا ابراہیم کوئی اور ہوگا اور اس شہر کی ماتم کن آوازیں یونہی گونجتی رہیں گی۔

کراچی آج صرف حادثوں کا نہیں، بے حسی کا شہر بن چکا ہے۔ سانحات پر آنسو خشک ہونے سے پہلے ہی حکمرانوں کی رعونیت بھری گفتگو زخموں پر نمک چھڑک دیتی ہے۔ میئر کراچی کی حالیہ پریس کانفرنس اسی تکبر، اسی حددھرمی اور اسی سنگدلی کا کھُلا اعلان تھی جیسے وہ شہریوں کے منتخب نمائندے نہیں، بلکہ کسی اونچے تخت پر بیٹھے خود ساختہ فرمانروا ہوں ، پریس کانفرنس سن کے یوں لگا جیسے یہ لوگ اپنے آپ کو جوابدہی سے ماورا، تنقید سے بالاتر اور خدائی دعوے کے قریب سمجھ بیٹھے ہیں۔اس پریس کانفرنس میں ایسا زعم، ایسی برتری، اور ایسا تکبر جھلک رہا تھا کہ گویا گردن میں سریا گاڑھ دیا گیا ہو نہ جھکنے کی گنجائش، نہ سننے کی صلاحیت، نہ ماننے کی ضرورت، یہ طرزِ گفتگو کسی خدمت گزار عوامی نمائندے کا نہیں، بلکہ اس ایلیٹ کلاس وڈیرہ شاہی کا ہے جو صدیوں سے عوام کو رعیت سمجھنے کی عادت میں مبتلا ہے۔یہ لوگ قوم کے خیرخواہ نہیں بن سکتے، کیونکہ خیرخواہی کے لیے دل میں درد چاہیے، اور درد وہاں ہوتا ہے جہاں اختیار کے بجائے احساس ہو۔

کراچی کا شہری آج بدترین بلدیاتی بداعمالیوں، غفلتوں اور بدانتظامیوں کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم فریاد لے کر کس کے پاس جائیں؟ کون ہے جو سنے؟ کون ہے جو بولے؟ کون ہے جو جائے وقوعہ تک قدم رکھے؟ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں شہرِ کراچی کے لوگ روزانہ جنازوں جیسے راستوں سے گزرتے ہیں سڑکوں پر ابلتے گٹر، گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی پگڈنڈیاں، تعفن زدہ ماحول، اور کھنڈرات میں بدلتے محلے یہ وہ شہر نہیں جسے کبھی روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔

ہم صبح گھروں سے نکل کر جس اذیت ناک منظر اور تعفن سے گزر کر دفتر پہنچتے ہیں، یہ صرف ہم ہی جانتے ہیں اور شام کو جب تھکن زدہ جسم گھر آتا ہے تو کئی گھنٹوں تک اس قابل نہیں ہوتا کہ زندگی کی کوئی اور ذمہ داری نبھا سکے۔ یہ تھکن جسمانی سے زیادہ ذہنی ہےایک شہر کی حالت دیکھ کر پیدا ہونے والی مایوسی کی تھکن، حکمرانوں کے رویے سے جنم لینے والی بے بسی کی تھکن۔یہ شہر ٹیکس سب سے زیادہ دیتا ہے، مگر بدحالی سب سے زیادہ سہتا ہے۔یہاں سانحات بھی عوام کے نصیب میں ہیں، اور حکمرانوں کا تکبر بھی کراچی کے شہریوں کا صبر اب آخری حدوں کو چھو رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران تخت و تاج والی ذہنیت کو ترک کریں، زمین پر آئیں، عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیں، ذمہ داری قبول کریں، اور اس شہر کو اس کے بنیادی حقوق فراہم کریں۔اگر ایسا نہ ہوا تو کراچی کی چیخیں صرف ایک بچے کی موت پر نہیں، نظام کے ہر زخم پر بلند ہوں گی اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی شہر چیخیں، تخت لرز جاتے ہیں۔

Shares: