کربلا: جہاں قافلۂ حق نے قیام کیا.مکہ سے کربلا تک سفر: 2 محرم
تحریر:سید ریاض حسین جاذب
بعض سرزمینیں صرف مٹی کی چادر اوڑھے ویران نہیں ہوتیں، وہ وقت کے سینے میں دفن صداؤں کی گونج رکھتی ہیں۔ کربلا بھی ایسی ہی ایک سرزمین ہے: خاموش، مگر سچ بولتی ہوئی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تاریخ، تقدیر اور قربانی ایک دوسرے سے آ ملے۔

جب امام حسینؑ کا قافلہ صحرا کی تپتی وسعتوں کو عبور کرتا ہوا فرات کے قریب پہنچا، تو حر بن یزید ریاحی نے مؤدب ہو کر عرض کی:
"مولا! یہاں قیام کیجیے، فرات قریب ہے، پانی میسر ہے، زمین ہموار ہے۔”

امام حسینؑ نے ایک لمحے کو قدم روکے، زمین کی طرف دیکھا، پھر سوال کیا:
"اس جگہ کا نام کیا ہے؟”
جواب ملا: "یہ کربلا ہے۔”

نام سنتے ہی امامؑ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ گہری خاموشی چھا گئی۔ ایک آہ، جو صدیوں کے دکھ میں لپٹی ہوئی تھی، سینے سے نکلی۔ امامؑ نے فرمایا:
"یہ کرب (غم) اور بلا (مصیبت) کا مقام ہے۔”

یہ نام فقط ایک جغرافیائی پہچان نہ تھا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں حضرت علی صفین جاتے ہوئے ٹھہرے تھے، اور پوچھا تھا:
"یہ جگہ کون سی ہے؟”
جب نام سنا، تو فرمایا:
"یہی وہ سرزمین ہے جہاں ان کا خون بہے گا، جہاں خاندانِ محمدؐ کا قافلہ اترے گا۔”

اب وہ لمحہ آ چکا تھا۔ قافلہ اتر گیا، ساز و سامان کھولا گیا، خیمے نصب ہوئے۔ لیکن امامؑ کا دل اضطراب سے بھرا ہوا تھا۔ یہ دو محرم 61 ہجری کا دن تھا۔

امام حسینؑ نے اپنے اہلِ خاندان کو جمع کیا۔ بیٹے، بھتیجے، بھائی، بھانجے سب سامنے موجود تھے۔ ایک نظر سب پر ڈالی، وہ نگاہ جو محبت سے لبریز اور آگاہی سے پر تھی۔ پھر آپؑ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور امامؑ نے آسمان کی طرف رخ کر کے وہ دعا مانگی جو رہتی دنیا تک مظلوموں کی زبان بن گئی:

"اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين”

"اے اللہ! ہم تیرے نبیؐ کا خاندان ہیں، ہمیں ہمارے وطن سے نکالا گیا، ہمیں حرمِ نبویؐ سے ہراساں اور بے دخل کیا گیا، اور بنو امیہ نے ہم پر ظلم ڈھائے؛ اے اللہ! ان سے ہمارا حق لے لے اور ہمیں ان ظالموں پر نصرت عطا فرما!”

یہ صرف ایک ذاتی فریاد نہ تھی، بلکہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے ہر حریت پسند کی زبان تھی۔ یہ پکار تھی ہر اس دل کی جو اقتدار کے ایوانوں میں بند سچائی کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔

اسی لمحے امامؑ نے اپنے باوفا ساتھیوں کی طرف رخ کیا اور وہ جملہ کہا جو صدیوں سے اہلِ حق کے لیے آئینہ اور اہلِ دنیا کے لیے تنبیہ ہے:

"الناس عبيد الدنيا، والدين لعق على السنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل الديانون”
"لوگ دنیا کے غلام ہیں، دین صرف ان کی زبانوں پر ہے، جب تک ان کے مفادات محفوظ رہیں، دین کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں؛ لیکن جب آزمائش آتی ہے تو سچے دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔”

یہ ہے کربلا کی روح ، حق کی وہ کسوٹی جو ہر دور کے باطن کو بے نقاب کرتی ہے۔

امام حسینؑ نے صرف روحانی تیاری پر اکتفا نہ کیا بلکہ عمل کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ آپؑ نے کربلا کی زمین کو نینوی اور غاضریہ کے باشندوں سے چھے ہزار درہم میں خریدا اور شرط رکھی کہ وہ آپ کی قبر کی طرف آنے والوں کی رہنمائی کریں گے اور کم از کم تین دن تک ان کی مہمانی کریں گے۔

اس عمل نے یہ طے کر دیا کہ کربلا صرف ایک معرکہ نہیں، بلکہ یاد، شعور، زیارت، اور بیداری کا مرکز ہے۔ ایک سوال آج بھی زندہ ہے: کربلا آج بھی ہمیں بلاتی ہے۔

پوچھتی ہے کہ:
کیا تم دین کو زبان تک محدود رکھتے ہو؟ یا بلاء کی گھڑی میں بھی حسینؑ کے قافلے میں شامل ہو سکتے ہو؟

یہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ، یہ ایک جاری سوال ہے، جو ہر دل کے دروازے پر دستک دیتا ہے:

حق کے ساتھ ہو؟ یا خاموش تماشائی؟

Shares: