قصور
دربار بابا بلہے شاہ کی کہانی
کارکنان مجلس تحفظ مزارات قصور کی زبانی
تفصیلات کے مطابق
قصور کے بین الاقوامی شہرت یافتہ صوفی شاعر اور روحانی بزرگ حضرت بابا بلّھے شاہ کے قبرستان میں مغربی دیوار کے ساتھ کم و بیش تین سو قبروں کو مسمار کرکے ان کی باقیات غائب کردی گئیں شہریان قصور سماجی ۔۔۔مذھبی۔سماجی ۔۔اور سیاسی رہنماؤں کی قیادت میں بھرپور طریقے سے احتجاج کیا اور کئی وفود نے منیجر اوقاف کو بھی ذاتی طور پر مل کر مسئلہ بتایا مگر فرعون صفت منیجر اوقاف رانا واسق چراغ نے معززین کی کوئی درخواست ماننے سے انکار کردیا اس کا کہنا تھا کہ میں یہ سب کچھ اپنے سینئر حکام کی سرپرستی میں کر رھا ھوں قصور کا ڈی سی بھی میرے ھاتھ میں ھے میرا پروگرام تو ڈیڑھ سو سے زائد دکانیں بنانے کا ھے تم سے جو کچھ ھوتا ھے کرلو ۔ یرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے
معتبر ذرائع سے یہ بھی معلوم ھوا ھے منیجر کا پروگرام متعلقہ حکام کی سرپرستی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر تقریباً ڈیڑھ سو دکانوں کی تعمیر کا ھے اور تقریبآ پندرہ کروڑ کی رقم شہریوں اور دیگر قبضہ مافیاز سے وصول کی جاچکی ھے یہ بھی معلوم ھوا ھے کہ پنجاب بھر میں جو قبرستان بھی محکمہ اوقاف پنجاب کی دسترس میں ہیں وھاں بھی یہی کام کیا جائے گا اور یوں محکمہ اوقاف کے افسران دس ارب کی دھاڑی لگانے کے چکر میں ھیں
قبریں فروختند بے ارزاں فروختند
یاد رھے کہ بابا بلّھے شاہ کے قبرستان میں جو ایریا نشانہ بنایا گیا ھے وھاں کم و بیش ایک سو ساٹھ مزارات ان مظلوم شھداء کے ھیں جو قیام پاکستان کے وقت ھجرت کے دوران ٹرینوں میں سکھوں کے ھاتھوں شھید ھوئے تھے
اور قصور کے ریلوے سٹیشن پر انکی میتیں اتار کر نزدیک ترین قبرستان جو کہ بابا بلّھے شاہ کا قبرستان تھآ میں دفن کردی گئیں
یہ بھی ان ملحوظ خاطر رکھا جائے اس سے پہلے بھی محکمہء اوقاف کی ماضی کی انتظامیہ تیس کنال سے زائد اراضی مزار بابا بلّھے شاہ کی مشرقی سمت لوگوں کے حوالے کرکے مال بنا چکی ھے لیکن اس دفعہ علمائے دین ،حفاظ کرام۔اور شھداء کے مزارات اس دین دشمن انتطامیہ محکمہ اوقاف قصور کی ہوس زر کے نشانہ بنے ھیں
اس سے پہلے مزار بابا بلّھے شاہ پر رکھے گئے نزرانوں کے گلے میں خوردبرد کی کہانیاں ھر فرد کی زبان پر ھیں
نیزمزار پر چڑھنے والی چادریں بھی خوردبرد کی جارھی ھیں اور بھی بہت ساری گفتنی و نا گفتنی قصے زبان عوام پر ھیں لیکن اس بار ظلم حد سے تجاوز کر گیا ھے لوگوں کے جزبات اشتعال کی حدوں کو چھو رھے ھیں اور کسی بھی وقت کوئی بھی سنگین واقعی رونما ھو سکتا ھے معاملہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحب کی عدالت میں پیشیاں بھگت رھا ھے اور انصاف میں تاخیر انصاف کے مترادف مثال کی عملی شکل اختیار کر گیا ھے بہت سارے اخبارات قبل ازیں بھی حکومت اور عوامی حلقوں کو اس سنگین صورتحال سےاگاھی دے چکے ھیں مگر تاحال ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی بااختیار شخص کے پاس اس عوامی مزھبی معاملے کیلئے کو یہ وقت نہیں صورتحال مذھبی قیادتِ کے ھاتھوں میں آگئی تو معاملات کسی بھی وقت خرابی کی حدیں عبور کرسکتی ہے