کر لو بات، بس یہی ہونا باقی تھا،صورتحال کنٹرول سے باہر، تہلکہ خیز انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

0
45

کر لو بات، بس یہی ہونا باقی تھا،صورتحال کنٹرول سے باہر، تہلکہ خیز انکشافات مبشر لقمان کی زبانی
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ آپ سب نے بچپن سے لیکر آج تک ایسی بہت سی کہانیاں سینں ہوں گی جس میں بتایا جاتا ہے کہ ایک باپ کے دو بیٹے تھے اس نے مرتے وقت اپنی جائیداد دونوں میں برابر تقیسم کر دی اب ان دونوں میں سے ایک بیٹا بہت ہی سمجھدار تھا جبکہ دوسرا بہت ہی شاہ خرچ مزاج کا تھا۔ سمجھدار بیٹے کو جو کچھ ورثے میں ملا اس نے اسے بہت دیکھ بھال کر استعمال کیا اور اسے ایسے کاموں میں لگایا جس سے وہ اپنی آمدن بڑھا سکے جبکہ دوسرے بیٹے نے پہلے پہل تو خوب عیاشی کی اس کے بعد جیسے جیسے پیسے ختم ہونے لگتے ہیں اس کا ہاتھ تنگ ہونا شروع ہو جاتا ہے پھر وہ لوگوں سے ادھار لینا شروع کر دیتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد جب وہ پہلے والا ادھار واپس نہیں کر پاتا تو لوگ اس کو ادھار دینا بھی بند کر دیتے ہیں اور نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے جس کے بعد یا تو وہ حالات سے تنگ آکر خودکشی کر لیتا ہے یا پھر سبق حاصل کرکے دوبارہ محنت مزدوری پر لگ کر اپنے حالات بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اس مثال کو ہم اس دنیا پر اپلائی کریں تو یہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جن ملکوں نے اپنے وسائل کو ٹھیک سے استعمال کیا وہ ترقی کر گئے لیکن دوسری طرف پاکستان جیسا ملک ہے جس نے نہ تو اپنے وسائل کو ٹھیک سے استعمال کیا پھر جو یہاں وسائل پر قابض ہیں انہوں نے تو خوب مال بنایا اور ترقی کرتے گئےلیکن غریب یہاں غریب سے غریب تر ہی ہوتا چلا گیا۔ حکومتوں نے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے آمدن بڑھانے کی بجائے قرضے لینے شروع کر دئیے پہلے پہل تو قرضے مل گئے لیکن جب وہ قرض وقت پر ادا نہیں ہوئے تو پھر قرض دینے والے اداروں نے شرط و شرائط لگانا شروع کر دیں اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہم اپنے اثاثے بھی گروی رکھوا رہے ہیں۔ لیکن مسائل وہیں کے وہیں ہیں وہی بجلی کے بڑھتے ہوئے ریٹس، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے، سبزی مہنگی، روٹی مہنگی، دوائیاں مہنگی، اور بے روزگاری الگ۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ مسائل کوئی ایک یا دو سال سے نہیں بلکہ ان مسائل نے پچھلے کئی سالوں سے ہمیں گھیرا ڈالا ہوا ہے لیکن اب وبا کی وجہ سے یہ معاملات بہت ہی سنگین ہو گئے ہیں اور کچھ ہماری حکومت کی نااہلی کہہ لیں کہ صورتحال اب کنٹرول سے باہرہوتی جا رہی ہے۔
یہ سب مسائل تو وہ ہیں جو کہ ہم ابھی برداشت کر رہے ہیں لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے جس کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں ہے اور وہ آہستہ آہستہ ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے اور وہ مسئلہ ہمارے بچوں کی تعلیم کا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ غریب طبقے کے تو بچے پہلے ہی زیادہ تر سکولوں سے باہر تھے کیونکہ پرائیوٹ سکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کی حیثیت نہیں تھی اور سرکاری سکولوں کا معیار ایسا تھا کہ وہ سوچتے تھے کہ وہاں بھیجنے سے بہتر ہے کہ ہم ان کو کسی کام میں لگائیں کچھ ہنر بھی سیکھ لیں اور ساتھ ہی گھر میں آمدن بھی آئے۔اس حوالے سے UNICEF کی ایک رپورٹ موجود ہے جس کے مطابق 17.6 فیصد پاکستانی بچے اپنے گھروں کا چولہا جلانے کے لئے تعلیم کی قربانی دیتے ہیں۔ہاں مڈل کلاس میں ہمیشہ یہ شوق رہا ہے کہ وہ جیسے کیسے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو سکے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جیسے پٹرول کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی کرایوں، کھانے پینے اور ضرورت کی تمام چیزوں کے ریٹس بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں ویسا ہی حال کچھ ہمارے سکولوں کا ہے ان کا سسٹم تو automaticہے آندھی طوفان وبا جو مرضی آ جائے ان کو فرق نہیں پڑتا ان کی فیسیں اپنے مقررہ وقت پر بڑھنی ہی بڑھنی ہیں۔ اور بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ یہ پرائیوٹ سکولز مڈل کلاس کی پہنچ سے بھی دور ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ والدین کی کمر ٹوٹ چکی ہے فیسیں دے دے کر۔ پچھلے کچھ سالوں سے والدین اس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ خدارا ان سکول سسٹمز کو لگام ڈالی جائے عدالتوں نے حکم بھی سنا دیا لیکن یہ سکولز اتنا بڑا مافیا بن چکے ہیں کہ ان کا عدالتیں بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں تھیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی وہ جھگڑا تو ختم نہیں ہوا تھا کہ ہمیں وبا نے جکڑ لیا۔ جس کی وجہ سے پچھلے سال مارچ میں سکولز بند ہو گئے لیکن جیسے میں نے آپ کو پہلے بتایا کہ ان سکولز کا تو
Automaticسسٹم ہے اس لئے سکولزبند ہونے کے باوجود بھی فیسوں کو سسٹم چلتا رہا۔ بچے سکول نہیں گئے لیکن ان کے Fee vouchersوالدین کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ ٹیچرز کی تنخواہوں کی آڑ لیتے ہوئے ان سکولوں نے اپنی فیسوں میں کوئی خلل نہیں پڑنے دیا۔ تو آپ سوچیں جب وبا میں روزگار محدود ہونے یا چھن جانے کی وجہ سے لوگوں کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہی مشکل ہوا ہوا تھا تو وہ ان فیسوں کو کیسے افورڈ کرتے۔ والدین نے پھرسے احتجاج کیا کہ جب بچے سکول نہیں جا رہے تو پوری فیس کیوں ادا کی جائے۔ تو ان سکولز نے فیس میں کمی نہیں کی البتہ آن لائن ایجوکیشن کا ڈرامہ ضرور شروع کر دیا گیا۔ جس کا مطلب تھا کہ والدین سکولوں کو فیس بھی دیں ساتھ ہی اپنے بچوں کو آن لائن کلاسز کے لئے کمپیوٹر، لیب ٹاپ یا ٹیبلیٹ لے کر دیں اس کے بعد ان کو انٹرنیٹ کا پیکج بھی کروا کر دیں۔ اور پھر بچوں کو پڑھانے کے لئے محنت اور وقت بھی خود لگائیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اب آپ خود سوچیں کہ یہ تمام چیزیں ایک غریب مڈل کلاس پاکستانی کیسے برداشت افورڈ کر سکتا ہے۔ تو پھر اس کا یہی رزلٹ ہوا کہ لوگوں نے مجبورا اپنے بچوں کو سکولز سے ہٹا لیا۔ اور یہ بات خود ہمارے ایجوکیشن منسٹر بھی اپنی پریس کانفرنس میں تسلیم کر چکے ہیں کہ کورونا کے دوران آٹھ ماہ سکول بند رہنے سے بہت سے بچے سکول چھوڑ گئے ہیں۔۔۔اور یہ تعداد سینکڑوں یا ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے۔ اور اس کے لئے ہماری حکومت نے ٹارگٹ سیٹ کیا ہے کہ اگلے پانچ ماہ میں سکولوں میں ایک ملین بچے داخل کرینگے۔۔۔۔لیکن میرا سوال ہے کہ یہ کیسے کریں گے؟؟؟اس وقت جو مہنگائی کے حالات آپ نے کر دئیے ہیں پٹرول آپ ایک ماہ میں دو بار بڑھا رہے ہیں، بجلی آپ نے مہنگی کر دی ہے، کھانے پینے کی اشیاء ایک سال میں کئی گنا بڑھ چکی ہیں، اپنے اثاثوں کے بارے میں آپ سوچ رہے ہیں کہ اسلام آباد کلب گروی رکھوائیں یا ایف نائن پارک۔۔۔ روزگار لوگوں کا چھنتا جا رہا ہے تو آپ مجھے بتائیں ان فیسوں کے ساتھ لوگ کیسے اپنے بچوں کو سکولز بھیجیں۔ نہ تو آپ سے اپنی اپوزیشن قابو آ رہی ہے نہ سکول مافیا۔۔۔ تو ایسے میں آپ کیسے ملک کو دوسرے ملکوں کے مقابلے میں ترقی کروائیں گے۔ آج جب دنیا biological, physical and digital technologyکی طرف جا رہی ہے جس میں artificial intelligence یعنی مصنوعی مشینی ذہانت، بغیر ڈرائیور کے چلنے والی خودکار گاڑیاں، جدید ڈرونز، تھری ڈی پرنٹنگ، کوانٹم مکینکس اور کوانٹم کمپیوٹرز، جدید کرنسی اور انٹرنیٹ کیساتھ ساتھ بائیو ٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی پر مشتمل ایسی ڈیوائسز شامل ہیں پوری دنیا ان پر کام کر رہی ہے۔ اور دوسری طرف ہمارے یہ حالات ہیں کہ پاکستان ان 12 ملکوں کی فہرست میں شامل ہے جہاں GDP کا 2 فیصد سے بھی کم حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ تو آج جو لاکھوں بچے ان حالات کی وجہ سے سکولز چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں کل کو وہ کیسے اس ٹیکنالوجی کے دور میں دوسرے ملکوں کے بچوں کا مقابلہ کریں گے۔ کیا آپ کو احساس ہے کہ ان سکولز مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہو کرآپ ان بچوں کو آگے بڑھنے میں مدد کرنے کی بجائے مزید پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ یہ بچے جو آج مہنگائی کی وجہ سے سکولز چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں یہ کل کو ڈاکٹر، انجینئر یا سائنسدان بنیں گے یا مزدوری کرنے پر مجبور ہوں گے۔ تو یہ ہمارا تعلیمی نظام جو ہماری جڑوں کو مضبوط کرنے کی بجائے کھوکھلا کر رہا ہے اس پر دھیان دیں۔

کر لو بات، بس یہی ہونا باقی تھا،صورتحال کنٹرول سے باہر، تہلکہ خیز انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

Leave a reply