کبھی ہمارے بچے ٹاٹ پر بیٹھ کر علم کے دریا پار کرتے تھے۔ نہ اُن کے گرد چمکتے کمروں کی دیواریں تھیں، نہ اُن کے سروں پر اے سی کی ٹھنڈی ہوا، لیکن ان کے دل قرآن و سنت کی روشنی سے منور تھے۔ وہ کچی زمین پر بیٹھ کر بھی کردار کی پختگی میں پہاڑوں جیسے مضبوط تھے۔ ان کے چہروں پر سادگی تھی، آنکھوں میں شرم و حیا، اور ذہن میں علم حاصل کرنے کا خالص جذبہ۔ استاد کا ایک اشارہ ان کے لیے حکم کا درجہ رکھتا تھا، اور ماں باپ کی دعائیں ان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتی تھیں۔ آج ہم ترقی کی اس دہلیز پر کھڑے ہیں جہاں تعلیم جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین ہے۔ لیپ ٹاپ، پروجیکٹر، وائی فائی، سمارٹ کلاس رومز، اور انگلی کی ایک جنبش پر کھلتی دنیا۔ آج کا بچہ کتاب سے زیادہ سکرین سے جڑا ہے۔ اس کی جیب میں فلیش ڈرائیو ہے، لیکن کردار میں کمزور ہے۔ اس کے پاس معلومات کا انبار ہے، مگر شعور کی روشنی عنقا ہے۔ وہ ہر سوال کا جواب گوگل سے ڈھونڈ لیتا ہے، لیکن دل کے سوالوں کا کوئی جواب اس کے پاس نہیں۔ زبان میں چالاکی ہے، لیکن لہجے میں عاجزی نہیں۔ لباس مہنگا ہے، لیکن نگاہوں میں حیاء نہیں۔ چہرہ تو روشن ہے، لیکن دل ویران ہو چکا ہے۔

ایبٹ آباد… وہ شہر جسے ایک زمانے میں علم و تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا تھا، آج بے حیائی، کنسرٹس اور اخلاقی بگاڑ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ان اداروں سے جہاں کبھی علم کی روشنی پھوٹتی تھی، آج سگریٹ، نسوار اور زہریلے خیالات کا ماحول دکھائی دیتا ہے ۔ تعلیمی ادارے جو کبھی کردار سازی کے مراکز ہوا کرتے تھے، اب محض کاروباری دکانیں بن چکے ہیں، جہاں فیسیں تو لی جاتی ہیں، لیکن تربیت نہیں دی جاتی۔ اساتذہ جو کبھی قوم کے معمار کہلاتے تھے، آج صرف تنخواہ کے محتاج بن چکے ہیں۔ انہیں نصاب ختم کرنے کی فکر ہے، لیکن نسل بچانے کی کوئی پریشانی نہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ہم نے صرف بچوں کو قصوروار ٹھہرا دیا، حالانکہ اس بگاڑ کے مجرم ہم سب ہیں۔ والدین جو بچے کو مہنگا فون تو دے دیتے ہیں، لیکن اس کی نظروں کی سمت نہیں جانتے۔ جو موبائل کا لاک تو کھول لیتے ہیں، لیکن دل کا حال نہیں پڑھتے۔ اساتذہ جو کبھی دلوں پر نقش چھوڑا کرتے تھے، اب صرف بورڈ پر الفاظ لکھنے تک محدود ہو گئے ہیں۔ ادارے جو تعلیم کے نام پر چل رہے ہیں، درحقیقت کاروبار کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اور ہم، وہ معاشرہ، جو ہر برائی کو دیکھ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ نہ کسی کو روکتے ہیں، نہ کسی کو سمجھاتے ہیں۔ بس خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ خاموشی محض لاپروائی نہیں، بلکہ شراکتِ جرم ہے۔ جب والدین غافل ہوں، اساتذہ بے حس، ادارے بے مقصد، اور معاشرہ بے سمت، تو نسلیں بھٹک جایا کرتی ہیں۔ یہی ہو رہا ہے۔ آج ہمارے بچے فیشن میں آگے، مگر فہم میں پیچھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سرگرم، مگر زندگی کے حقائق سے نابلد۔ جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے، تب تک نسلوں کا یہ بگاڑ بڑھتا جائے گا۔ آج اگر ہم نے اصلاح کی راہ اختیار نہ کی، تو کل یہی بچے بے راہ روی، نشے اور بے دینی کے پرچارک بن جائیں گے۔ اور جب یہ وقت آئے گا، تو شکوہ کرنے کا بھی کوئی حق باقی نہیں رہے گا۔ کاش! والدین وقت نکال کر بچوں کی آنکھوں میں جھانکیں، ان کی الجھنیں سمجھیں، ان کے سوالوں کا جواب بنیں۔ کاش! اساتذہ نصاب شروع کرنے سے پہلے دل میں کردار کا سبق اتاریں۔ اور کاش! ہم سب اتنی جرات پیدا کریں کہ برائی کو برائی کہہ سکیں، چاہے وہ ہمارے اپنے ہی گھر کے آنگن میں کیوں نہ ہو۔ اصلاح کا وقت ابھی باقی ہے۔ دیے بجھنے سے پہلے اگر ایک چراغ جلایا جائے، تو اندھیرا ٹالا جا سکتا ہے، لیکن اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں، تو کل یہ تاریکی نسل کو نہیں،معاشرے کو بھی تباہ کردے گی۔

Shares: