آج دنیا بھر میں ”خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن” منایا جا رہا ہے جب کہ بھارت کے غیر قانونی زیرِقبضہ جموں کشمیر میں خواتین 1947ء سے بھارت کے مسلسل فوجی قبضے اور سیاسی ناانصافیوں کی وجہ سے ناختم ہونے والے مصائب ، ریاستی دہشت گردی ، مظالم ، خوف اور اذیت کا بدستور شکار ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے آج کے دن کی مناسبت سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ علاقے میں گزشتہ 37 برس کے دوران اپنی ریاستی دہشتگردی کی جاری کارروائیوں کے دوران 2 ہزار 3 سو 56 خواتین کو شہید اور 11 ہزار 2 سو 69 کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کشمیری خواتین بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سب بری طرح نشانہ بن رہی ہیں ۔1989ء سے اب تک بھارتی ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے 22 ہزار 9 سو 91 کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے کشمیری خواتین کی بے حرمتی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ درجنوں کشمیری خواتین بشمول حریت رہنما آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، صوبیہ عزیز، شیما شفیع وازہ، شائستہ مقبول، شمس بیگم، زیتون اختر، روبینہ نذیر، ثریا راشد وانی، شکیلہ، صائمہ بشیر میر ، مفیدہ اقبال ، راشدہ سلام دین، شفیقہ بیگم، سردہ بیگم، منیرہ بیگم، عشرت رسول، نگینہ منظور لون، آفرینہ المعروف آیات گنائی، افروزہ بیگم، شبروزہ بانو برکاتی، سلیمہ بیگم، گلشن ناز، دیوان باغ، نصرت جان، فرحت بیگم، حلیمہ بشیر ، نرگس بٹ ، آبانو ، نگینہ منیرہ بیگم ، پروین اختر ، مریم بیگم ، شمیمہ بیگم ، عظمیٰ وسیم، سلیمہ بی بی اور شہزادہ اختر نئی دلی کی تہاڑ سمیت بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں مسلسل قید ہیں ۔بھارتی قابض فوجی کشمیریوں کو ان کے استصواب رائے کے سیاسی مطالبے پر اجتماعی سزا دینے کے لیے جنسی ہراساں کو ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہے ہیں جو کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کا ایک جنگی ہتھیار بن چکا ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیری خواتین اپنے بیٹوں ، شوہروں اور بھائیوں کی جبری گمشدگیوں کی وجہ سے مسلسل اذیت کا شکار ہیں – اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی کشمیری خواتین کو بھارتی ریاستی سرپرستی میں جاری ظلم و تشدد سے نجات دلانے کیلئے اقدامات کرے ۔رپورٹ میں واضح کیا گیاہے کہ بھارت کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو کمزور کرنے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری، شوپیان میں آسیہ اور نیلوفر نامی دو خواتین کی عصمت دری اور قتل اور کٹھوعہ عصمت دری اور قتل کے واقعات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے 23 فروری 1991ء کی رات کو ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران سو کے قریب خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی۔ باوردی بھارتی اہلکاروں نے 29 مئی 2009ء کو شوپیاں میں آسیہ اور نیلوفر کو اغوا کرنے کے بعد اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا اور بعد میں دونوں کو قتل کر دیا۔ جنوری 2018ء میں جموں خطے کے علاقے کٹھوعہ میں ایک 8 سالہ مسلم بچی آصفہ بانو کو بھارتی پولیس اہلکاروں اور دائیں بازو کی تنظیموں سے وابستہ فرقہ پرست ہندوؤں نے اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا ۔ بھارتی فوج نوجوانوں کے قتل ، گرفتاری اور انکی جبری گمشدگی کے ذریعے خواتین کو مسلسل ذہنی اذیت کا نشانہ بنا رہی ہے۔رپورٹ میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کشمیری خواتین کے خلاف گھناؤنے جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں رکوانے کیلئے بھارت پر دباؤ بڑھائیں۔

اُدھر کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا ہے مقبوضہ کشمیر میں خواتین بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سب سے بری طرح نشانہ بن رہی ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ بھارت ظلم و تشدد کے ذریعے کشمیری خواتین کو خوف و دہشت کا نشانہ بنانے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو گا اور وہ تحریکِ آزادی میں اپنا اہم کردار ادا کرتی رہیں گی ۔

دریں اثناء خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینر غلام محمد صفی اور دیگر رہنماؤں محمود احمد ساغر، محمد فاروق رحمانی، ایڈووکیٹ پرویز احمد، شمیم شال، مشتاق احمد بٹ، زاہد اشرف اور دیگر نے اسلام آباد میں اپنے بیانات میں کہا ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں خواتین مسلسل بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں۔انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ بھارت نے اپنے فوجیوں کو کالے قوانین کے تحت کشمیری خواتین کی آبروریزی اور بے حرمتیوں کی مکمل چھوٹ دے رکھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگست 2019ء کے بعد کشمیری خواتین پر بھی قابض بھارتی فوجیوں کے مظالم میں تیزی آئی ہے ۔

Shares: