کشمیر الیکشن اور ہمارے ساستدانوں کی بڑی بڑی باتیں . تحریر :‌ محمد وسیم

2013 کا الیکشن جب ہو رہا تھا تب سے مجھے سیاست کا شوق چڑھ گیا تھا اس وقت جب میں اپنے سیاستدانوں کے تقریریں اور وعدے سنتا تھا تو مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ واقعی میں ہمارے سیاستدان بہت مخلص ہے اپنے قوم کے ساتھ کچھ وقت جب گزرا نئ پارٹی کو حکمرانی کرنے میں۔ تو تب مجھے پتہ چلا کہ جو باتیں اور نعرے جلسوں میں لگائ گئ تھی وہ سب تو ایک دھوکہ تھا وہ باتیں وہ نعرے سب کچھ بھول گۓ تھے ہمارے حکمران اسکی کچھ مثالیں یہ ہے کہ ہمارے تھر چھوٹے چھوٹے اور پیارے بچے بھوک سے مر رہے تھے جب کہ ہمارے سیاستدانوں کو کھانے سرکاری ہیلی کاپٹر میں جاتے تھے ہرطرف مہنگائ، بجلی کی لوڈشیڈنگ، اور یہاں تک کے میرے پاکستانیوں کو پانی بھی صاف نہیں ملتی تھی۔ پاکستان میں غربت تیزی سے بڑھنے لگی ہر دوسرا بندہ بے گھر ہے ہر دوسرا بندہ قرضہ دار اور بےروزگار ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو اپنے ملک کی کوئ فکر نہیں ہے ان کے دور کے رشتہ دار بھی سرکاری املاک کا استعمال کلھم کھلا کررہے ہے۔ ہمارے سیاست دان الیکشن ہوتے ہی اپنے وعدے بھول جاتے ہے اور پانچ سالوں کیلۓ بادشاہ بن کر محل میں بیٹھ جاتے ہے عوام کے مسائل کے حل کیلۓ اسمبلیاں موجود ہے لیکن ہمارے سیاست دان وہاں بھی جاکر لڑائیاں کرکے آتے ہے اور وہاں پر عوام کے مسائل بتانے کے بجاۓ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہے اور ایک دوسرے پر حملے کرتے رہتے ہے۔ قائدءاعظم جب پہلے کابینہ کی اجلاس کی صدارت کر رہا تھا تو ان سے ای ڈی سی نے پوچھا کہ سر اجلاس میں قافی پیش کی جاۓ یا چاۓ؟ قائداعظم نے چونک کر سر اٹھایا اور فرمایا یہ لوگ گھروں سے چاۓ قافی پی کر نہیں آۓ؟ پھر قائداعظم نے فرمایا کے جس کو چاۓ یا قافی پینی ہے وہ اپنے گھروں سے پی کر آۓ اور کہا کہ یہ قوم کا پیسہ ہے قوم کیلۓ ہے وزیروں کیلۓ نہیں۔ ایسے بھی ہمارے لیڈرز ہوا کرتے تھے۔

ہمارے ملک کو اس وقت باتوں والے لیڈرز کی نہیں بلکہ کام والے لیڈرز کی ضرورت ہے۔ اگر ایک حکمران پارٹی کام نہیں کریگی تو وہ خود کو بدنام کریگی۔ قائدءاعظم نےکوئٹہ میں 15جون،1948 ء کو میونسپلٹی سے خطاب کرتے ہوۓ کہا تھا کہ بلاشبہ نمائندہ حکومت اور نمائندہ ادارں کا ہونا بہت خوب اور بہت ضروری ہے ۔ لیکن اگر چند اشخاص انہیں محض ذاتی اقتدار اور املاک میں اضافے کا ذریعہ بنالیں اور انہیں ایسی پست سطح تک گسھیٹ لائیں تو ایسی حکومت اور ادارے نہ صرف اپنی قدر اور منزلت سے محروم ہوجاتے ہے بلکہ بدنامی بھی کمالیتے ہےاصل میں میرے ا س کالم لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں اب باشعور عوام بننا چاہیئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے ملک میں جتنے مسلۓ مسائل اسے کونسا وہ بندہ یا وہ پارٹی اچھی طریقے سے حل کرسکتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کے پڑھے لکھے لوگ بھی اپنا شعور الیکشن کے وقت بھول جاتے ہے اور اپنا ووٹ بیجھ دیتے ہے جس سے ہمارا ملک تباہی کی طرف جاتا ہے۔
اب چونکہ کشمیر کا الیکشن نزدیک ہے تو میں اپنے کشمیریوں سے کہونگہ کہ آپ بہت ہی سمجھدار لوگ ہو۔اپنے ووٹ کو بیچنے کے بجاۓ اسے ایسے بندے کو دے جو آپ لوگوں کیلۓ سوچتا ہو نا کے وہ کل منتخب ہو کر آپ لوگوں کو بھول جاۓ اور آپ لوگوں کے پیسوں پر اپنے اور اپنی فیملی کے ساتھ عیاشیاں کرتے رہے. یہ وطن ہمارا ہے اور ہمیں خوو اس کا خیال رکھنا ہوگا نا کہ ہم اسے کسی کرپٹ کے حوالے کرکے اپنے ملک کو ترقی کی راہ سے ہٹا دے.

Twitter id : Waseemk370

Comments are closed.