مسئلہ کشمیر اور ہم ––– حنظلہ عماد

کشمیر بانی پاکستان کے الفاظ میں پاکستان کی شہ رگ، اور ہرگز کوئی جذباتی جملہ نہیں بلکہ زمینی حقائق اس کے ناقابل تردید شواھد فراہم کررہے ہیں۔ عرصہ ایک صدی سے بالترتیب ڈوگرہ اورہندو غاصبوں کے خلاف کشمیری نبرد آزما ہیں یعنی تقسیم ہندوسان اور پاکستان بننے سے بھی پہلے، 19 جون 1947 کو ہی ریاست جموں و کشمیر میں الحاق پاکستان کی قراداد پیش ہوکر منظور ہوچکی تھی، بعد ازاں دھوکے بازی سے بھارت سرکار اس پر قابض ہوئی اور پاکستان کے ساتھ تنازعہ بڑھنے پر معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جایا گیا جہاں ابھی تک حل طلب ہے۔ بھارت میں نریندرا مودی کی حکومت نے ریاست جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت قائم رکھنے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کردیا۔ یوں دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گویا اب مسئلہ کشمیر حل ہوگیا اور بھارت نے کشمیر کو مستقل اپنا حصہ بنالیا ہے۔ یہ سراسر بے وقوفی تھی جس کی بھارت ہی میں موجود بہت سے صاحب عقل افراد نے بھی مخالفت کی۔ کشمیر عالمی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور پاکستان اس کا باقاعدہ فریق ہے اس لیے بھارت تنہا اس کا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا لیکن یہ بات پاکستان میں بہت سے لوگوں کو سمجھانی بہت مشکل ہے۔ یہ فیصلہ سامنے آنے پر پاکستان میں بھی بھانت بھانت کی بولیاں سامنے آنے لگیں۔ ان میں اکثریت اس ملک سے نہایت مخلص تھے۔ ماسوائے چند ایک کے جو صرف یہی راگ الاپتے رہے کہ کشمیر بیچ دیا گیا ہے۔ ہمارے بہت سے صاحب الرائے اور لکھنے والے احباب مضطرب تھے کہ بھارت نے اس قدر بڑاقدم اٹھا لیا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے کوئی جوابی کاروائی نہیں کی جارہی ہے۔ جذبہ حب الوطنی اور کشمیریوں سے محبت ان کے خون کھولائےدیتی تھی اور وہ بار بار شکوہ کناں تھے۔ بظاہر ہماری طرف سےایک خاموشی اور رسمی مذمتوں کے سوا کچھ نا تھا۔ کردیں گے، ہوگا، کیا جائیگا، یعنی مسقبل کے صیغے کی گردان تھی جو حکومتی حلقوں کی طرف سے جاری تھی۔ لیکن ماضی میں کچھ تلخ یادوں کی بدولت ان دعووں پر یقین کرنے کو دل نہیں مانتا تھا۔ اس لیے بہت سے ہمارے احباب سوال اٹھانے پر حق بجانب تھے۔ اس پر انہیں الزامات کا بھی نشانہ بنیا گیا جو سراسر بے وقوفی تھی لیکن ایسا بھی نہیں کہ کشمیر پر پاکستان اس دفعہ روایتی مذمت ہی کررہا تھا تاہم یاد رہے کہ اگر اپنی سٹریٹجی فیس بک پر ہی عام کرنی ہے تو پھر دشمن سے تو لڑلیے ہم، البتہ اپنی افواج اور اداروں پر اعتماد ضرور ہے لیکن یہاں تو ابراھیم علیہ السلام جیسے پیغمبر بھی کہہ اٹھے تھے کہ اللہ ایمان تو ہے لیکن آنکھ سے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ یہ حال ہمارا ہے کہ اپنے اداروں پر اعتماد ضرور ہے لیکن ہمیں کوئی ایسے آثار بھی تو نظر آئیں کہ کچھ ہورہا ہے۔ اب اگرچہ معمولی لیکن بھر بھی کچھ آثار نظر آنے لگے ہیں کہ پاکستان اس بار معاملے کو سنجیدگی سے لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ 50 سال بعد مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس ایک مثبت خبر ہے۔ اگرچہ اس اجلاس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں ہیں تاہم یہ اس بات کی یقین دہانی ضرور ہے کہ پاکستان عالمی دنیا میں تنہا نہیں ہے۔ لیکن ایک تلخ حقیقت اور بھی کہ مسئلہ کشمیر اس بار بھی ہم دنیا میں نمایاں نہیں کرسکے ہیں بلکہ یہ بھارت ہے جس نے اس قدر بڑا قدم اٹھایا ہے کہ دنیا بولنے پر مجبور ہے۔ پاکستان نے ابھی معمولی سنجیدگی دکھائی ہے اور بھارت سرکارکے ہرکارے نیوکلیائی حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ حقیقت میں اس وقت مودی سرکار کی اپنے ہی پاؤں پر ماری گئی کلہاڑی کی بدولت بھارت سخت مشکل میں ہے۔ بھارت مخالف عالمی رائے عامہ کی وجہ سے اضطراب میں اضافہ ہورہا ہے لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا کہ یہ جدید ریاست کا دور ہے اور یہاں میکاؤلی کا فلسفہ ہی چلتا ہے۔ ایک ارب انسانوں کی منڈی سے محض انسانی حقوق کی خاطر کچھ سخت معاملہ کرنے آج کل کا دستور نہیں ہے۔ لہذا پاکستان کو نہایت سنجیدگی اور متانت سے اپنے کارڈ کھیلنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا شاید یہ آخری موقع ہے۔ لیکن ایک گزارش میری ہم وطن دوستوں سے جو سوشل میڈیا پر لکھتے بھی ہیں کہ ایک دوسرے پر فتوے مت بانٹو اور اختلاف کرنے کا ہنر سیکھ لو، پاکستان کے کردار سے اختلاف یا سوال اٹھائے جاسکتے ہیں اوراس کی وجہ صرف کردار میں کمی ہی نہیں آپ کی معلومات کی کمی بھی ہوسکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے اصل فریق کشمیری پاکستان سے ہرگز ناراض نہیں ہے اور آج بھی سبزہلالی پرچم ہی تھام کر کھڑے ہیں۔اس لیے تکمیل پاکستان کی جنگ لڑنے والوں کے پشتیبان بنیں نا کہ آپس میں محاذ آراء ہوں ، اللہ ہمارا حامی ناصر ہو اور جلد کشمیریوں کو آزادی کی نعمت نصیب فرمائے۔ آمین

Comments are closed.