آزاد کشمیر اس وقت سیاسی بے یقینی اور عوامی اضطراب کے ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں وہاں بدامنی، احتجاج اور عوامی بے چینی میں اضافہ اس امر کا تقاضا کر رہا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور متعلقہ سیاسی جماعتیں ہوش مندی کا مظاہرہ کریں۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کشمیر محض ایک خطہ نہیں بلکہ پاکستان کے قومی مفاد اور سفارتی وقار سے جڑا ہوا ایک حساس مسئلہ ہے۔ ایسے میں وہاں کی قیادت کا انتخاب کسی سیاسی مصلحت یا ذاتی وفاداری کی بنیاد پر نہیں بلکہ کردار، اہلیت اور عوامی اعتماد کے معیار پر ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی کلچر میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ عہدوں کی تقسیم میرٹ کی بجائے سیاسی قربت اور مفاد پرستی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اگر یہی رویہ آزاد کشمیر میں بھی دہرایا گیا اور کسی بد کردار یا کرپٹ فرد کو وزیراعظم کے عہدے پر بٹھایا گیا تو اس کے نتائج خطرے ناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ عوامی اعتماد مزید مجروح ہوگا انتظامی نظام کمزور پڑے گا۔ آزاد کشمیر کو اس وقت ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو دیانت دار، بصیرت اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہو جو محض اقتدار کی کرسی کی خواہش نہ رکھتا ہو بلکہ عوامی نمائندگی کے اصل جذبے کے تحت اپنی ذمہ داری نبھائے۔

کشمیر کے عوام باشعور ہیں وہ اپنے مستقبل کے فیصلوں میں شفافیت اور انصاف چاہتے ہیں پاکستان کی سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آزاد کشمیر کی صورتحال محض ایک صوبائی یا علاقائی معاملہ نہیں بلکہ یہ قومی سلامتی اور بین الاقوامی وقار سے جڑا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وہاں ایک باکردار، قابل اعتماد اور دیانت دار قیادت سامنے لائی جائے ورنہ بداعتمادی اور انتشار کی لہر ایک بڑے سیاسی بحران میں بدل سکتی ہے۔ آزاد کشمیر کی وزارت عظمی کا عہدہ کوئی عام سیاسی کرسی نہیں بلکہ یہ قومی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے ارباب اختیار سوچیں کشمیر کے عوام کسی سیاسی جماعت کے سیاسی تجربات کے میدان نہیں وہ ایک باوقار قوم ہے جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کے پرچم کے سائے میں اپنی وفاداری نبھائی۔ اگر کسی کرپٹ، بدکردار یا نااہل شخص کو وزیراعظم بنا دیا گیا تو یہ محض ایک تقرری نہیں ہوگی بلکہ کشمیر کے عوام پر قاری ضرب ہوگی۔

Shares: