کشمیر بظاہر ایک قلع بند وادی ہے، جس کے چاروں اطراف فلک بوس کوہسار ہیں۔ یہ دیو قامت کوہسار کشمیر کے فطری اعتبار سے حفاظتی حصار ہیں۔
لیکن اس سب کے باوصف وادئ کشمیر ایک بوتل بند سرزمین نہیں ہے۔ جہاں قدرت نے اس کے اردگرد فلک بوس دیوار کھڑا کی ہے وہاں اس جنت نشین خطہ کو بہت سے فطری راستے بھی عطا کئے ہیں جن سے وادی کا رابطہ دنیا جہاں سے تھا۔ مثال کے طور پر شاہراہ ابریشم کی راہداری، جو کشمیر کو وسطی ایشیا، مشرقی وُسطی اور چین سے ملاتی تھی۔ اسی طرح مُغل شاہراہ، جو وادی کو ۱۹۴۷ سے قبل ہندوستان اور افغانستان سے ملاتی تھی۔ اوڑی والا راستہ جو پنجاب اور افغانستان سے ملاتا تھی۔ اور اگر کلاروس کے غاروں کے پس منظر کو صحیح تسلیم کیا جائے تو یہ فطری ٹنل کشمیر کو رُوس سے اور یورپ ملاتا تھا۔ اس کے علاوہ جموں سرینگر راستہ جو ڈوگرہ مہاراجوں نے تعمیر کیا تھا۔
مگر اس کا کیا کیا جائے کہ 1947 کے غیر فطری تقسیم نے پوری وادیِ کشمیر کو بوتل بند کرکے رکھ دیا۔ صرف ایک راستہ بچا جو سرینگر جموں راستہ کہلاتا ہے۔ مگر اس کے متعلق ہمارے مرحوم صاحبِ انکل جی اے مانتو کہتے تھے کہ یہ "جغرافیائی راستہ نہیں ہے بلکہ سیاسی راستہ ہے”۔ مرحوم بخشی غلام محمد کے دورِ وزارت اعظمی میں مغل شاہراہ کو تعمیر کرنے کی تجویز ہوئی لیکن اُس وقت کی مرکزی سرکار کو کیا محرکات نظر آئیں کہ اُس نے مغل روڈ کو تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی۔ خیر تقسیم ہند کی نصف صدی کے بعد مفتی محمد سعید جب وزیر اعلی بنے تو انہوں نے کشاں کشاں مغل شاہراہ کو تعمیر کیا۔
کشمیر کے فطری راستے بند ہونے سے کشمیری معیشت کو زبردست نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پڑ رہا ہے؛ بلکہ کشمیر کے مسدود راستوں کی وجہ سے کشمیر کی اقتصادیات کو آج بھی بقا کے لالے پڑے ہیں۔ یہاں کی ساری آزاد تجارت بوتل بند اور محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
راستوں کی اس نایابی کے سب انتہائی بڑے نقصانات یہاں کی میوہ صنعت اٹھانا پڑے اور تادم تحریر یہ مشکل ترین سلسلہ جاری ہے۔ بہرحال اب مغل شاہراہ اور جموں سرینگر شاہراہ وہ واحد راستے ہیں جن کے ذریعے میوہ جات وادی سے باہر جاسکتے ہیں۔ لیکن چونکہ جموں سرینگر شاہراہ کی کشادگی اور چہار راہ(Four way) پر تعمیر جاری ہے جس سے میوہ جات کشمیر سے باہر جانے میں انتہائی پیچیدہ مسائل پیدا ہوئے۔ شروع میں مال ٹرکوں کی آمد رفت کے لئے صرف 4 گھنٹے مختص کئے گئے جو انتہائی ناکافی تھے۔ اس حوالے سے ٹرک ڈرائیوروں کا کہنا ہے پورے ایک مہینے میں انہیں صرف دو بار وادی سے باہر جانے کا موقع ملتا تھا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں میوہ ٹرک درماندہ ہو رہے تھے جس کے کارن میوہ راستے میں ہی سڑ جاتا ہے اور بعد میں باہر کی منڈیوں میں کوڑیوں کے مول بک جاتا ہے۔ اس صورتحال سے فروٹ گروورز سخت نالاں ہوئے اور سرکار سے فریادی ہوئے۔ سرکار بھی نیند سے جاگی اور بعد از خرابی بسیار حکم جاری کیا کہ میوہ ٹرکوں کو "بلا روک ٹوک” جانے دیا جائے۔
لیکن ایک تو راستے کی رکاوٹیں اور دوسرے بمپر کراپ کی وجہ سے کشمیر کا شاندار اور لذیذ سیب اپنی افادیت کھو بیٹھا اور کوڑیوں کے مول ہر جگہ بکنے لگا۔ راجستھان میں پچاس روپے میں تین کلو، ممبئی میں تین سو روپے فی پیٹی اور دہلی میں تین سو سے چھ سو اور یہاں دو سو سے پانچ سو کی گراوٹ تک پہنچ گیا۔
ایک گروور نے مجھے ۴ سال پہلے پنجورہ نامی "میوہ گاؤں” میں بتایا تھا کہ میوہ اگانے والے کو خود ایک پیٹی سیب 400 روپے میں بغیر پیٹی کے حاصل ہوتی ہے۔ یعنی درختوں پر ہی۔ اب 500 روپے تک اس کی درختوں پر ہی لاگت آتی ہے۔ اور آج اس کو یہاں دو یا چار سو ملتے ہیں۔ یہ تو اس انڈسٹری کا زوال ہے۔ امسال یہ صنعت انتہائی زوال کا شکار ہے۔ بلکہ اگر کہا جائے تو اپنی موت کے قریب ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پلوامہ ضلع میں کئی باغ مالکان کو اپنے باغات میں سیب کے درخت کاٹنے کے ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر ہو رہے ہیں!
سوال یہ ہے کہ اگر مختلف ریاستوں سے بمپر پیداوار ہوتی ہے تو مرکزی حکومت دوسرے ملکوں سے کیوں سیب بڑی تعداد میں برآمد کرتی ہے؟۔ موجودہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ حکومت یہاں سے ہی سیب کو ایکسپورٹ کرے۔ باہر سے سیب کی برآمد پر فوری طور مکمل پابندی لگائے۔
حال ہی میں ترکی سے خبر ملی ہے کہ تُرکیہ حکومت نے 24 بلین ڈالر کے میوے مشرقی وسطی اور خلیج کے ملکوں کو ایکسپورٹ کئے۔ یہ 2 ٹرلین اور 95 ارب ہندوستانی روپے بنتے ہیں۔ لیکن کشمیر کے گروورز بوتل بند ہیں۔ ان کی باقی دنیا کے ساتھ رسائی ایک حسرت، تمنا ہی نہیں بلکہ ایک ڈراؤنا خواب ہے!