کشمیری شعراء کی آوازیں بھی دم توڑنے لگیں، نیویارک ٹائمز نے مودی سرکار کو کیا بے نقاب
بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بھارتی جبر و استبداد اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب کشمیری شعراء کی آوازیں بھی دم توڑ رہی ہیں ۔
یہ بات معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہی ہے اخبار نے درجن بھر کشمیری شعرا ئ کے انٹرویو کرنے کے بعد تیار کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے ان کی اس قدر سخت نگرانی کی جارہی ہے کہ وہ یا تو مزاحمتی شاعری کی تخلیق ترک کرنے پر مجبور ہیں یا پھر اپنے شعر ایسے مقامات پر ہی سنا سکتے ہیں جہاں بھارتی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی نظریں ان کا تعاقب نہ کر رہی ہوں
بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے علاقے بلہامہ سے نیویارک ٹائمز کے نام نگار سمیر یاسر نے بتایا کہ علاقے میں بڑی تعداد میں تعینات بھارتی فوجیوں نے کشمیری مسلمانوں کی نگرانی انتہائی سخت کر دی ہے اور اس مقصد کے لئے دو سال قبل مزید فوجی دستے علاقے میں تعینات کئے ہیں اخبار کے مطابق کشمیری شاعر غلام محمد بھٹ جو مدہوش بھٹ کے قلمی نام سے لکھتے ہیں سخت بھارتی نگرانی کے باعث اپنے کالام کی تخلیق اور اسے سنانے کا عمل انتہائی خفیہ کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عشرے کے وسط تک وہ مجاہدین کے جنازوں کے اجتماعات میں اپنی نظمیں سناتے تھے لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکتے ۔مجاہدین کے جنازوں کے اجتماعات میں اپنی نظمیں پڑھنے کی پاداش میں ان کومقامی حکام نے حراستی مراکز میں قید رکھا تاہم وہ وہاں بھی اپنے ساتھی قیدیوں کو اپنی نظمیں سناتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ حراستی مرکز میں قیدیوں کو ان کی کلائیوں میں رسیاں ڈال کر لٹکا دیا جاتا تھا اور ان کو ہائی وولٹیج بلبوں کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو جبر بھارتی حکومت کی طرف سے اب روا رکھا جا رہا ہے ایسا جبر انہوں نے گزشتہ تیس سال کے دوران نہیں دیکھا۔ اور اس جبر کے نتیجہ میں اب ہر طرف خاموشی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے موجود بحران کا بہتریں حل خاموشی ہی ہے۔ھارتی جبر نے ان کشمیری شاعروں کی آواز کو بھی خاموش کر دیا ہے جو کشمیر میں صدیوں سے جاری شعر گوئی کی روایت کے امین تھے۔
مدہوش بھٹ نے بتایا کہ 2018 میں بھارتی فوجیوں اور حریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کے دوران ان کا گھر نظر آتش کر دیا گیا جو ان کی آنکھوں کے سامنے جل کر خاکستر ہوگیا اور اس میں تقریباً ایک ہزار صفحات جن پر ان کے اشعار لکھے تھے وہ بھی جل کر خاک ہو گئے اس وقت انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کا جسم بھی اس آگ میں جل گیا ہو۔انہوں نے بتایا کہ پولیس کئی بار انہیں طلب کر کے ان سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جس کا کہنا ہے کہ ان کے اشعار تفریق کو ہوا دیتے ہیں اس لئے اب وہ اپنے اشعار اب کسی کو نہیں سناتے۔ مدہوش بھٹ نے کہا کہ اس زمانے میں خاموشی ہی بہتر ہے دریا کنارے بیٹھے خوفزدہ مدہوش بھٹ نے کہا کہ ہمارے ہاتھوں میں لرزش نہیں لیکن ذہن شعر کہنے پر آمادہ نہیں۔ بھارت نے بڑی حد تک ہماری آواز کو خاموش کروا دیا ہے لیکن ہمارے دلوں میں آزادی کی تڑپ باقی رہے گی، یہ ختم نہیں ہو سکتی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا کہ پولیس نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرنے پر کم از کم تین کشمیری شعرا سے حال ہی میں گھنٹوں پوچھ گچھ کی۔
کشمیر شاعرہ زبیرہ نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ہمیں اس وقت تک سانس بھی لینے کی اجازت نہیں جب تک ہم بھارتی حکومت کے قوانین اور اس کی خواہش کے مطابق سانس نہ لیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خاموش کرایا جاتا ہے، آزادی اظہار اور داد رسی سب کچھ ختم ہو چکا ہے اور ہر طرف گھٹن ہے اب ان کی شاعری کے موضوعات ان کے علاقے میں قائم فوجی چوکیاں، ان میں موجود لاتعداد بھارتی فوجی اور سڑکوں پر کھڑی کی گئی لاتعداد رکاوٹیں ہیں اور وہ انہی موضوعات پر شعر کہتی ہیں۔ بھارت میں حکمران جماعت بی جے پی کے ایک مقامی راہنما نرمل سنگھ نے اس صورتحال پر تبصرہ میں کہا کہ بھارتی حکام علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگانا چاہتے ہیں
انہوں نے خبر دار کیا کہ شعرا سمیت کسی کو بھی بھارت کی علاقائی سالمیت پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے صحافیوں کو ہدایات جاری کی جاتی ہیں کہ وہ کیا لکھیں اور کیا نہ لکھیں اور ان میں سے کچھ پرتو ملک سے باہر جانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
پولیس جموں و کشمیر کی صورتحا ل بارے ٹویٹ کرنے والے صحافیوں کے خلاف دہشت گردی کے الزامات عائد کرنے کی دھمکیاں دیتی ہے۔ 2019 سے اب تک 2300 سے زیادہ افراد کو دہشت گردی کے قوانین کے تحت جیل میں ڈالا جا چکا ہے۔ان قوانین کے تحت نعرے لگانے اور سوشل میڈیا پر سیاسی پیغامات پوسٹ کرنے جیسی سرگرمیوں کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں پولیس پرامن احتجاج کو بھی فوری طور پر روک دیتی ہے۔ بھارتی کریک ڈائون کے دو سال مکمل ہونے کے موقع پر 5 اگست کو کئی کشمیری دکانداروں نے اپنی دکانیں احتجاجاً بند رکھیں۔اس موقع پر سرینگر میں سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد نے دکانداروں کو دکانیں کھولنے پر مجبور کرنے کی غرض سے سریئے اور لوہا کاٹنے والے بلیڈز سے دکانوں کے تالے کاٹنا شروع کر دیئے۔