قصورکےایک غریب گھر میں پیدا ہونے والی ‘اللہ وسائی’ فن گائیکی کی بے تاج ملکہ بنی

صرف پانچ سال کی عمرمیں اپنے خاندان کے لئے دھن دولت کی دیوی بن گئی تھی
0
66
showbiz

گائے گی دنیا گیت میرے

ملکہ ترنم نورجہاں

شوبز کی تاریخ کی شاید واحد ہستی تھی کہ جو اپنے بچپن سےلےکر بڑھاپے تک سپرسٹار رہی 21 ستمبر 1926ء کو قصور کے ایک غریب گھر میں پیدا ہونے والی ‘اللہ وسائی’ ، صرف پانچ سال کی عمرمیں اپنے خاندان کے لئے دھن دولت کی دیوی بن گئی تھی نو سال کی عمر میں اپنی گائیکی سے لاہور سٹیج پر داد سمیٹ رہی تھی کولکتہ میں بننے والی اپنی پہلی پنجابی فلم شیلا عرف پنڈدی کڑی (1935) میں اداکاری کرتی اور گیت گاتی ہوئی نظر آئی۔

اس کا فلمی نام ‘بے بی نورجہاں’ ، فلم پوسٹروں اور اشتہارات پر بڑے نمایاں انداز میں شائع ہوتا تھا سولہ سال کی عمر میں لاہور ساختہ اردو ہندی فلم خاندان (1942) میں ہیروئن بنی جس میں اس کے گیتوں نے پورے برصغیر میں دھوم مچا دی تھی چالیس کے عشرہ میں ممبئی کی فلموں میں صف اول کی اداکارہ اور گلوکارہ تھی پچاس کے عشرہ میں پاکستان کی عظیم گلوکارہ اور اداکارہ کے طور اپنے فن کی بلندیوں پرنظر آئی۔

ساٹھ کے عشرہ سے پس پردہ گلوکاری شروع کی اور نوے کے عشرہ میں اپنی بیماری تک ، فن گائیکی کی بے تاج ملکہ تھی۔ سات عشروں تک بام عروج پر رہنے والی اس حسین و جمیل ہستی پر قدرت کے انعام و اکرام کی برسات دیکھئے کہ دولت و شہرت کی فراوانی رہی اور وہ زندگی بھر کبھی کسی کی محتاج نہیں ہوئی۔ 23 دسمبر 2000ء کو جب سفر آخرت پر روانہ ہوئی تو وہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اور شب القدر کی متبرک رات تھی۔۔!

نور جہاں کا فنی کیریئر چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور تقسیم سے قبل کے گیت ہیں۔ دوسرا دور بطور اداکارہ اور گلوکارہ فلموں کا دور تھا۔ تیسرا دور ساٹھ اور ستر کے عشروں کے شاہکار گیت ہیں۔ چوتھا اور آخری دور ایکشن فلموں کا تھا جن میں اگر میڈم نورجہاں کے گیت نہیں ہوتے تھے تو ڈسٹری بیوٹرز فلم ہی نہیں اٹھاتے تھے۔ ، وہ فلم پھنے خان (1965) کے گیت "جیو ڈھولا۔۔” سے لے کر فلم ماں دا لال (1974) کے گیت "میں پل پل تینوں پیار کراں۔۔” تک کا دور ہے

ملکہ ترنم نورجہاں کے اب تک ایک ہزار سے زائد فلموں میں دوہزار سے زائد گیتوں کا ریکارڈ دستیاب ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق انہوں نے کم از کم ساڑھے تین سے چار ہزار کے قریب فلمی گیت گائے تھے۔ میڈم کے گائے ہوئے فلمی دوگانوں کی سب سے بڑی تعداد مسعودرانا کے ساتھ تھی۔ اعدادوشمار سے کھیلتے ہوئے بڑی سخت حیرت ہوئی کہ ان دونوں عظیم گلوکاروں کی مشترکہ فلموں کی تعداد ساڑھے تین سو سے زائد تھی جو گلوکاروں کی کسی بھی جوڑی کے لئے ایک منفرد ریکارڈ ہے۔

دوسرے نمبر پر اس فہرست میں سب سے زیادہ مشترکہ فلموں کا ریکارڈ مالا اور احمدرشدی کا ہے جن کی تعداد سوا دو سو ہےلیکن ان کے دوگانوں کی تعداد سو سے بھی زائد ہے جبکہ میڈم نورجہاں اور مسعودرانا کے دوگانوں کی تعداد صرف 57 ہے اس کی ایک بڑی وجہ اردو اور پنجابی فلموں کا ایک بنیادی فرق ہے ۔

مسعودرانا اور ملکہ ترنم نورجہاں کی پہلی مشترکہ فلم بنجارن (1962) تھی لیکن پہلا دوگانا فلم میرے محبوب (1966) میں گایا گیا تھا ” کلی مسکرائی جو گھونگھٹ اٹھا کے ، خدا کی قسم تم بہت یاد آئے۔۔” حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے اس گیت کی دھن موسیقار خلیل احمد نے بنائی اور فلم میں یہ گیت درپن اور شمیم آرا پر فلمایا گیا تھا۔

ان دونوں کا پہلا پنجابی دوگانا اگلے سال کی فلم نیلی بار (1967) میں تھا ” میرے دل دا وجے اک تارا ، سدا وسدا روے تیرا دوارا ، نی میرا دل کھون والئے۔۔” موسیقار کالے خان شبو کی دھن میں یہ گیت یوسف خان اور شیریں پر فلمایا گیا تھا۔ اب تک کی معلومات کے مطابق آخری دوگانا ، فلم نہلا دہلا (1994) میں تھا جو وجاہت عطرے کی دھن میں روبی نیازی اور عمرشریف پر فلمایا گیا تھا ” آجا ، آجا، پیار پیار پیار پیار کرئیے ، پر لا کے بدلاں چہ اڈ چلیے۔۔

ملکہ ترنم نورجہاں کی فنی صلاحیتوں کی تعریف کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ان سے زیادہ موسیقی کی سوجھ بوجھ کم ہی گلوکاروں کو حاصل تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیت ہے کہ کوئی فن کبھی کسی خاص فنکار تک محدود نہیں رہتا۔ میڈم کے مقابلے میں جن گلوکاروں نے گایا اور نام کمایا ، وہ کوئی معمولی فنکار نہیں تھے۔ مسعودرانا ایسے ہی ایک گلوکار تھے جو فنی اصطلاح میں ایک عطائی تھے لیکن بڑے بڑے کسبیوں پر بھاری تھے۔

قدرت نے انہیں جو آواز اور انداز دیا تھا ، اس نے انہیں مردانہ گائیکی میں بے مثل بنا دیا تھا، فلمی گلوکار اپنی مرضی سے نہیں گاتے تھے ، فلموں میں ان کی مانگ ، ان کے میعار اور مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتی تھی۔ مسعودرانا کو میڈم نورجہاں کی طرح سب سے زیادہ فلموں میں سب سے زیادہ گیت گانے کا اعزاز حاصل ہے اور ان دونوں کو پنجابی فلموں میں مکمل اجارہ داری حاصل ہوتی تھی۔

مسعودرانا اور میڈم نورجہاں کے 13 گیت ایسے تھے جنہیں مقابلے کے گیت کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک ہی گیت کو دو الگ الگ گلوکار گاتے ہیں ، ریڈیو پر ایسے گیتوں کو ‘ایک گیت دو آوازیں’ کے نام سے پیش کیا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے بیشتر گیتوں میں مسعودرانا کو میڈم نورجہاں پر برتری حاصل ہوتی تھی۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک نسوانی آواز چاہے جتنی بھی پاور فل ہو ، وہ ایک جاندار مردانہ آواز کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پھر مسعودرانا جیسا کھلے گلے اور اونچی سروں میں گانے والا ایک بے مثل گلوکار ہو تو مقابلہ ناممکن ہوجاتا تھا۔ مسعودرانا ، اپنی اس خداداد خوبی کی وجہ سے دیگر گلوکاروں پر چھا جاتے تھے اور سننے والوں پر بڑا گہرا اثر ہوتا تھا۔ ان گیتوں کو سن کر میرے دل میں مسعودرانا کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا تھا –

مسعودرانا اور میڈم نورجہاں نے مقابلے کا پہلا گیت فلم باؤجی (1968) میں گایا تھا "دل دیاں لگیاں جانے نہ۔۔” اس شوخ گیت کے موسیقار رشیدعطرے تھے اور بول حزیں قادری نے لکھے تھے۔

دوسرا گیت فلم دلاں دے سودے (1969) میں نذیرعلی کی دھن میں خواجہ پرویز کے بول تھے "بھل جان اے سب غم دنیا دے۔۔” دھیمی سروں میں گائے ہوئے اس گیت میں بھی مسعودرانا نے ثابت کردیا تھا کہ کیوں انہیں پاکستان کا سب سے بہترین ہر فن مولا فلمی گلوکار کہا جاتا تھا۔ ویڈیو پرنٹ میں یہ گیت نہیں تھا لیکن فلم میں موجود تھا۔

اسی سال کی فلم شیراں دی جوڑی (1969) میں بابا چشتی کی دھن میں ایک المیہ گیت "تیرے ہتھ کی بے دردے آیا ، پھلاں جیا دل توڑ کے۔۔” میں ایک بار پھر مسعودرانا نے اپنی عظمت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ اس دور میں گیتوں کے مکھڑے گانے میں مسعودرانا کا کوئی ثانی نہیں ہوتا تھا۔ وہ پہلے بول سے ہی سننے والے کو اپنے قابو میں کر لیتے تھے۔

فلم تیرے عشق نچایا (1969) کے اس گیت میں البتہ میڈم نورجہاں کو مسعودرانا پر واضح برتری حاصل تھی "تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا۔۔” میڈم کا گایا ہوا یہ سپرہٹ گیت فلم کا تھیم سانگ تھا جو فلم کے آخر میں مسعودرانا کے گائے ہوئے گیت میں مکس کیا گیا تھا اور بڑا گہرا اثر چھوڑتا تھا۔

مسعودرانا کے یادگار گیتوں میں ایک اور گیت "یا اپنا کسے نوں کر لے ، یا آپ کسے دا ہو بیلیا۔۔” بھی تھا جو فلم دل دیاں لگیاں (1970) میں ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں حزیں قادری نے لکھا تھا۔ میڈم نے اس گیت کو سنجیدہ انداز میں گایا تھا جبکہ مسعودرانا کا گیت شوخ انداز میں تھا ۔

فلم آنسو (1971) میں پہلی بار مسوسیقار نذیرعلی نے خواجہ پرویز کا لکھا ہوا ایک اردو گیت "تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں ، جیسے صدیاں بیت گئیں۔۔” ان دونوں سے گوایا تھا جو ان کا اکلوتا مقابلے کا اردو گیت تھا۔۔ مسعودرانا اس گیت کو جتنی آسانی اور قدرتی انداز میں گاتے ہیں ، میڈم اس پر پورا زور لگا کر گا رہی ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے۔

اسی سال کی فلم جٹ دا قول (1971) میں موسیقار بخشی وزیر صاحبان نے یہ گیت تخلیق کیا تھا "جان والئے ، تینوں میں سنائی نئیوں گل دل والی نی۔۔” مسعودرانا نے یہ گیت انتہائی شوخ انداز میں گایا تھا اور آغاز میں بڑی لمبی تان لگائی تھی جو بے مثل تھی لیکن یہ گیت سنجیدہ انداز میں میڈم نورجہاں کی آواز میں زیادہ مقبول ہوا تھا جو ریڈیو پر اکثر بجتا تھا۔

فلم دامن اور چنگاری (1973) میں موسیقار ایم اشرف نے تسلیم فاضلی کا ایک دوگانا ان دونوں سے ایک شوخ رومانٹک گیت گوایا تھا "یہ وعدہ کرو کہ محبت کریں گے۔۔” اسی گیت کو پھر مسعودرانا کی آواز میں سنجیدہ انداز میں گوایا تھا "یہ وعدہ کیا تھا ، محبت کریں گے۔۔” جو شباب کیرانوی کا لکھا ہوا تھا۔ دونوں گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔

فلم نگری داتا دی (1974) میں تنویرنقوی کا لاہور شہر کا ایک خوبصورت روحانی تعارف نذیرعلی نے کمپوز کیا تھا "سجنوں ، اے نگری داتا دی ، ایتھے آندا کل زمانہ۔۔” بنیادی گیت مسعودرانا کا گایا ہوا انتہائی متاثرکن گیت تھا۔ اس گیت میں مکھڑا "گنج بخش فیض عالم مظہر نورخدا۔۔” جتنا خوبصورت مسعودرانا نے گایا تھا ، آج تک کوئی دوسرا گلوکار اس سے بہتر نہیں گا سکا۔ میڈم نورجہاں نے اس گیت کو ثانوی انداز میں گایا تھا جو کم ہی سننے میں آتا تھا۔

فلم نوکرووہٹی دا (1974) میں ایک اور بھاری بھر کم گیت تھا "نی چپ کر دڑ وٹ جا ، نہ عشق دا کھول خلاصہ۔۔” خواجہ پرویز کے گائے ہوئے اس گیت کی دھن وجاہت عطرے نے بنائی تھی اور ان دونوں نے یہ گیت بڑے شوخ انداز میں گایا تھا ، مسعودرانا کو بلاشبہ اس گیت میں بھی برتری حاصل تھی جس کی ایک وجہ منورظریف پر فلمایا جانا بھی تھا۔

فلم ظالم تے مظلوم (1974) میں وجاہت عطرے کی دھن میں یہ واحد گیت تھا جو مقبول نہیں ہوا تھا "میرے دل نوں آگئی ایں پسند کڑیئے۔۔” یہ بھی ایک شوخ گیت تھا۔

فلم گاما بی اے (1976) میں وزیرافضل کی دھن میں یہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا "نیندراں نئیں آندیاں۔۔” اس گیت کو بھی زیادہ تر مسعودرانا ہی سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ میڈم نے بھی بڑے اچھے انداز میں گایا تھا۔

اب تک کی معلومات کے مطابق آخری گیت فلم نرگس (1992) میں تھا "جینا میں نئیں جینا ، بن یار دے۔۔” ایم اشرف کی دھن میں یہ گیت خواجہ پرویز نے لکھا تھا۔ یہ دور میڈم نورجہاں کا تھا جو فلمی گائیکی پر چھائی ہوئی تھیں جبکہ مسعودرانا کی آواز میں وہ جان نہیں رہی تھی ، جو ان کی پہچان ہوتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تلاش ، ترتیب و ترسیل : آغا نیاز مگسی

Leave a reply